فہد اشرف
محفلین
غالب کا پوسٹ مارٹم
ایک دن غالبؔ کے پڑھ کر شعر میری اہلیہ
مجھ سے بولی آپ تو کہتے تھے ان کو اولیا
عاشق بنت عنب کو آپ کہتے ہیں ولی
فاقہ مستی میں بھی ہر دم کر رہا ہے مے کشی
پوجنے سے مہ جبینوں کے یہ باز آتا نہیں
اور پھر کافر کہے جانے سے شرماتا نہیں
کوئی بھی مہوش اکیلے میں اگر آ جائے ہاتھ
چھیڑخوانی کر دیا کرتا تھا اکثر اس کے ساتھ
بد گمانی کا اگر محبوب کی ہوتا نہ ڈر
اس کے پیروں کا وہ بوسہ لیتا رہتا رات بھر
کوئی رکھتا تھا اگر اس سے ذرا شرم و حجاب
رعب دکھلانے کو اس سے کہہ دیا کرتے جناب
''ہم سے کھل جاؤ بوقت مہ پرستی ایک دن''
''ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذر مستی ایک دن''
گر کسی مہمان کے آنے کی ہوتی تھی خبر
بوریا تک بھی نہیں ہوتا تھا اس ننگے کے گھر
اس لئے چھائی ہوئی تھی اس کے گھر میں مفلسی
کل کے ڈر سے آج پینے میں نہ کرتا تھا کمی
مے کشی کو گر کوئی ساقی نہیں دیتا تھا جام
اوک سے پی کر ہی وہ اپنا چلا لیتا تھا کام
مرتے مرتے بھی شراب اس کی نہ ہو پائی تھی کم
جام کو تکتا رہا جب تک رہا آنکھوں میں دم
اس کے اس کردار پر مجھ سے نہ کرنا گفتگو
خاک میں جس نے ملا دی خاندانی آبرو
اس قدر پہنچے ہوئے شاعر کا یہ کردار ہے
شعر کہنا چھوڑ دیجے شاعری بیکار ہے
اس سے پہلے کہ مرا برباد ہو جائے یہ گھر
آپ بس گھر میں رہیں شعر و ادب کو چھوڑ کر
مے کشی اور آپ ہوں مطلوب و طالب کی طرح
سوچتی ہوں آپ ہو جائیں نہ غالبؔ کی طرح
(نشتر امروہی)
ایک دن غالبؔ کے پڑھ کر شعر میری اہلیہ
مجھ سے بولی آپ تو کہتے تھے ان کو اولیا
عاشق بنت عنب کو آپ کہتے ہیں ولی
فاقہ مستی میں بھی ہر دم کر رہا ہے مے کشی
پوجنے سے مہ جبینوں کے یہ باز آتا نہیں
اور پھر کافر کہے جانے سے شرماتا نہیں
کوئی بھی مہوش اکیلے میں اگر آ جائے ہاتھ
چھیڑخوانی کر دیا کرتا تھا اکثر اس کے ساتھ
بد گمانی کا اگر محبوب کی ہوتا نہ ڈر
اس کے پیروں کا وہ بوسہ لیتا رہتا رات بھر
کوئی رکھتا تھا اگر اس سے ذرا شرم و حجاب
رعب دکھلانے کو اس سے کہہ دیا کرتے جناب
''ہم سے کھل جاؤ بوقت مہ پرستی ایک دن''
''ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذر مستی ایک دن''
گر کسی مہمان کے آنے کی ہوتی تھی خبر
بوریا تک بھی نہیں ہوتا تھا اس ننگے کے گھر
اس لئے چھائی ہوئی تھی اس کے گھر میں مفلسی
کل کے ڈر سے آج پینے میں نہ کرتا تھا کمی
مے کشی کو گر کوئی ساقی نہیں دیتا تھا جام
اوک سے پی کر ہی وہ اپنا چلا لیتا تھا کام
مرتے مرتے بھی شراب اس کی نہ ہو پائی تھی کم
جام کو تکتا رہا جب تک رہا آنکھوں میں دم
اس کے اس کردار پر مجھ سے نہ کرنا گفتگو
خاک میں جس نے ملا دی خاندانی آبرو
اس قدر پہنچے ہوئے شاعر کا یہ کردار ہے
شعر کہنا چھوڑ دیجے شاعری بیکار ہے
اس سے پہلے کہ مرا برباد ہو جائے یہ گھر
آپ بس گھر میں رہیں شعر و ادب کو چھوڑ کر
مے کشی اور آپ ہوں مطلوب و طالب کی طرح
سوچتی ہوں آپ ہو جائیں نہ غالبؔ کی طرح
(نشتر امروہی)