غالب غالب کی ایک غزل۔۔۔ حسب حال

جیہ

لائبریرین
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں

فرصتِ کاروبارِ شوق کسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں

دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں

تھی وہ اک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں

ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں‌طاقت، جگر میں حال کہاں

ہم سے چھوٹا "قمار خانۂ عشق"
واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں

فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں

مضمحل ہو گئے قویٰ غالبؔ
وہ عناصر میں اعتدال کہاں​
 

جیہ

لائبریرین
شکریہ
اور یہ غالب کے ان غزلوں سے ایک جو کہ نہایت صاف اور بےساختہ ہیں۔ بلکہ سہل ممتنع غزل ہے
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب انتخاب
اک داستان سمیٹ رکھی چچا غالب نے گویا اس مختصر سے شعر میں ۔۔۔۔۔۔۔
ہم سے چھوٹا "قمار خانۂ عشق"
واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں
 

جیہ

لائبریرین
اب کیا بتاؤں کہ مجھے تو غالب کا یہ شعر بھی پسند ہے حالانکہ بے معنی ہے۔


اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں
کہ ہے سر پنجۂ مژگانِ آہو پشت خار اپنا
 

نایاب

لائبریرین
اب کیا بتاؤں کہ مجھے تو غالب کا یہ شعر بھی پسند ہے حالانکہ بے معنی ہے۔


اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں
کہ ہے سر پنجۂ مژگانِ آہو پشت خار اپنا

ویسے آپ اسے بے معنی کیونکر قرار دےسکتی ہیں ۔؟
جنوں کے مارے ایسا ہی کلام کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ نہ سر اپنی سوچ کے تابع نہ پاؤں اپنی مرضی سے اٹھتے ہیں ۔ بس رہ جاتا ہے اک دل ۔ جو سنائے چلے جاتا ہے " فسانہ غم " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جیہ

لائبریرین
ویسے آپ اسے بے معنی کیونکر قرار دےسکتی ہیں ۔؟
جنوں کے مارے ایسا ہی کلام کرتے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ نہ سر اپنی سوچ کے تابع نہ پاؤں اپنی مرضی سے اٹھتے ہیں ۔ بس رہ جاتا ہے اک دل ۔ جو سنائے چلے جاتا ہے " فسانہ غم " ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
مجھے کوئی حق نہیں اسے بے معنی قرار دینے کا :) مگر بقول مولانا عبد الباری آسی (شارح دیوان غالب) یہ شعر کوہ کندن کاہ برآمدن ہے۔

آپ خود سوچیں کہ یہ جنون کی کون سی انتہا ہے کہ غالب صحرا میں بہ حالت جنون اتنا تیز دوڑ رہا ہے کہ غزال صحرائی سے بھی تقریبا آگے نکلتا ہے اور غزال کی لانبی پلکیں غالب کے پیٹھ کو کجھانے کی آلے کا کام کر رہی ہے۔ :)
 

فاتح

لائبریرین
مجھے کوئی حق نہیں اسے بے معنی قرار دینے کا :) مگر بقول مولانا عبد الباری آسی (شارح دیوان غالب) یہ شعر کوہ کندن کاہ برآمدن ہے۔

آپ خود سوچیں کہ یہ جنون کی کون سی انتہا ہے کہ غالب صحرا میں بہ حالت جنون اتنا تیز دوڑ رہا ہے کہ غزال صحرائی سے بھی تقریبا آگے نکلتا ہے اور غزال کی لانبی پلکیں غالب کے پیٹھ کو کجھانے کی آلے کا کام کر رہی ہے۔ :)
عبد الباری آسی کی دیگر بے شمار فضول گوئیوں میں سے ایک کا حوالہ دیا ہے آپ نے۔ :)
نظم طباطبائی اس شعر کے متعلق یوں لکھتے ہیں:
"اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں
کہ ہے سر پنجۂ مژگانِ آہو پشتِ خار اپنا
اسدؔ اور آہو کا تقابل تو ظاہر ہے، جنون جولان ہونے سے یہ اشارہ کیا ہے کہ آہو بھی میرے پیچھے رہ جاتا ہے اور پشتِ خار سے پیچھے ہی کھجاتے ہیں۔ گدا کی لفظ پشتِ خار کی مناسبت کے لئے ہے، بے سر و پا کہنے سے یہ مقصود ہے کہ پشتِ خار تک میرے پاس نہیں ہے، اگر ہے تو مژگانِ آہو ہے پنجہ میں اور مژگان میں اور پشتِ خار میں، وجہ شبہ جو ہے وہ ظاہر ہے یعنی شکل تینوں کی ایک ہی سی ہے، مژگان کو پہلے پنجہ سے تشبیہ دی، پھر پنجہ کو پشتِ خار سے تشبیہ دی۔"
 

فاتح

لائبریرین
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں

فرصتِ کاروبارِ شوق کسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں

دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں

تھی وہ اک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں

ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں‌طاقت، جگر میں حال کہاں

ہم سے چھوٹا "قمار خانۂ عشق"
واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں

فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں

مضمحل ہو گئے قویٰ غالبؔ
وہ عناصر میں اعتدال کہاں​
یہ غزل جگجیت نے بے پناہ خوبصورت انداز میں گائی ہے۔ اکثر ہمارے کمپیوٹر پر یہی چل رہی ہوتی ہے۔ ضرور سنیے گا
 

عظیم

محفلین
مراسلہ حذف کر دیا کہ غالب مرحوم کے اشعار پر میں کون ہوتا ہوں داد دینے والا -
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
تھی وہ اک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں


تھی جو اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں

جانے دیجے عظیم صاحب آپ
غالب ایسا ہمیں کمال کہاں

وہ جنوں وہ خرد وہ بیتابی
وہ تمنا وہ دل میں حال کہاں




 
آخری تدوین:
تھی وہ اک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں


تھی جو اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں

جانے دیجے عظیم صاحب آپ
غالب ایسا ہمیں کمال کہاں

وہ جنوں وہ خرد وہ بیتابی
وہ تمنا وہ دل میں حال کہاں




غالب کی پیروڈیز کے لیے پہلے ہی ایک دھاگہ بنا ہوا ہے ۔
 

عظیم

محفلین

خلیل بھائی میں نے پیروڈی کب کی ۔ میں غزل پڑھ رہا تھا تو جو سوال '' وہ '' کے لئے ذہن میں آیا وہ آپ صاحبِ علم حضرات کے سامنے رکھ دیا تا کہ مجھے بھی کچھ سیکھنے کا موقع مل سکے ۔ اور یہ شعر

وہ جنوں وہ خرد وہ بیتابی
وہ تمنا وہ دل میں حال کہاں

تعریف کے طور پر کہا ۔

ایک یہ بھی

وہ تصور وہ لفظ وہ طاقت
وہ خرد وہ جنوں وہ حال کہاں
 
Top