ابوشامل
محفلین
[FONT="]قلعۂ احمد نگر[/FONT]
[FONT="]5[/FONT][FONT="] دسمبر [/FONT][FONT="]1942[/FONT][FONT="]ء [/FONT]
[FONT="]صدیق مکرم[/FONT]
[FONT="]پانچویں صلیبی حملہ کی سرگزشت ایک فرانسیسی مجاہد "[/FONT][FONT="]Crusader[/FONT][FONT="]' ژے آن دو ژواین ویل([/FONT][FONT="]Jean De Jain Ville[/FONT][FONT="]) نامی نے بطور یادداشت کے قلم بند کی ہے۔ اس کے کئی انگریزی ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔ زیادہ متداول نسخہ ایوری مینس لائبریری کا ہے۔[/FONT]
[FONT="]پانچواں صلیبی حملہ سینٹ لوئس ([/FONT][FONT="]Lewis[/FONT][FONT="]) شاہ فرانس نے براہ راست مصر پر کیا تھا۔ دمیاط ([/FONT][FONT="]Demietta[/FONT][FONT="]) کا عارضی قبضہ، قاہرہ کی طرف اقدام، ساحل نیل کی لڑائی، صلیبیوں کی شکست، خود سینٹ لوئس کی گرفتاری اور زرِ فدیہ کے معاہدہ پر رہائی، تاریخ کے مشہور واقعات ہیں، اور عرب مؤرخوں نے ان کی تمام تفصیلات قلم بند کی ہیں۔ لوئس رہائی کے بعد عکہ ([/FONT][FONT="]Acre[/FONT][FONT="]) آیا جو چند دوسرے ساحلی مقامات کے ساتھ صلیبیوں کے قبضہ میں باقی رہ گیا تھا، اور کئی سال وہاں مقیم رہا۔ ژواین ویل نے یہ تمام زمانہ لوئس کی ہمراہی میں بسر کیا۔ مصر اور عکہ کے تمام اہم واقعات اس کے چشم دید واقعات ہیں۔ [/FONT]
[FONT="]لوئس [/FONT][FONT="]1248[/FONT][FONT="]ء میں فرانس سے روانہ ہوا۔ دوسرے سال دمیاط پہنچا۔ تیسرے سال عکہ، پھر [/FONT][FONT="]1254[/FONT][FONT="]ء میں فرانس واپس ہوا۔ یہ سنین اگر ہجری سنین سے مطابق کیے جائیں تو تقریبا [/FONT][FONT="]646[/FONT][FONT="]ھ اور [/FONT][FONT="]656[/FONT][FONT="]ھ ہوتے ہیں۔ [/FONT]
[FONT="]ژواین ویل جب لوئس کے ہمراہ فرانس سے روانہ ہوا تو اس کی عمر چوبیس برس کی تھی۔ لیکن یہ یادداشت اس نے بہت عرصہ کے بعد اپنی زندگی کے آخری سالوں میں لکھی۔ یعنے [/FONT][FONT="]1309[/FONT][FONT="]ء ([/FONT][FONT="]708[/FONT][FONT="]ھ) میں۔ جب اس کی عمر خود اس کی تصریح کے مطابق پچاسی برس کی ہو چکی تھی، اور صلیبی حملہ کے واقعات پر نصف صدی کی مدت گذر چکی تھی، اس طرح کوئی تصریح موجود نہیں جس کی بنا پر خیال کیا جا سکے کہ مصر اور فلسطین کے قیام کے زمانہ میں وہ اہم واقعات قلم بند کر لیا کرتا تھا۔ پس جو کچھ اس نے لکھا ہے، وہ پچاس برس پیشتر کے حوادث کی ایک ایسی روایت ہے، جو اس کے حافظہ نے محفوظ کر لی تھی، با ایں ہمہ اس کے بیانات جہاں تک واقعات جنگ کا تعلق ہے، عام طور پر قابلِ وثوق تسلیم کیے گئے ہیں۔ [/FONT]
[FONT="]مسلمانوں کے دینی عقاید و اعمال اور اخلاق و عادات کی نسبت اس کی معلومات ازمنۂ وسطی کی عام فرنگی معلومات سے چنداں مختلف نہیں۔ تاہم درجہ کا فرق ضرور ہے چونکہ اب یورپ اور مشرق وسط[/FONT][FONT="]یٰ[/FONT][FONT="] کے باہمی تعلقات جو صلیبی لڑائیوں کے سائے میں نشوونما پائے رہے تھے۔ تقریبا ڈیڑھ سو برس کا زمانہ گذر چکا تھا، اور فلسطین کے نو آباد صلیبی مجاہد اب مسلمانوں کو زیادہ قریب ہو کر دیکھنے لگے تھے، اس لیے قدرتی طور پر ژو این ویل کے ذہنی تاثرات کی نوعیت سے مختلف دکھائی دیتی ہے جو ابتدائی عہد کے صلیبیوں کے رہ چکے ہیں، مسلمان کافر ہیں، ہیدین ([/FONT][FONT="]Heathen[/FONT][FONT="]) ہیں، پے نیم ([/FONT][FONT="]Paynim[/FONT][FONT="]) ہیں، پے گن ([/FONT][FONT="]Pagan[/FONT][FONT="]) ہیں، مسیح کے دشمن ہیں۔ تاہم کچھ اچھی باتیں بھی انکی نسبت خیال میں لائی جا سکتی ہیں اور ان کے طور طریقہ میں تمام باتیں بری نہیں ہیں۔ مصری حکومت اور اس کے ملکی اور فوجی نظام کے بارے میں اس نے جو کچھ لکھا ہے وہ ستر فیصد کے قریب صحیح ہے۔ لیکن مسلمانوں کے دینی عقاید و اعمال کے بیانات میں پچیس فیصد سے زیادہ صحت نہیں۔ پہلی معلومات غالباً اس کی ذاتی ہیں، اس لیے صحت سے قریب تر ہیں۔ دوسری معلومات زیادہ تر فلسطین کے کلیسائی حلقوں سے حاصل کی گئی ہیں، اس لیے تعصّب و نفرت پر مبنی ہیں۔ اس عہد کی عام فضا دیکھتے ہوئے یہ صورتِ حال چنداں تعجّب انگیز نہیں۔ [/FONT]
[FONT="]ایک عرصہ کے بعد مجھے اس کتاب کے دیکھنے کا یہاں پھر اتفاق ہوا۔ ایک رفیقِ زنداں نے ایوری مینس لائبریری کی کچھ کتابیں منگوائی تھیں، ان میں یہ بھی آ گئی۔ اس سلسلہ میں دو خصوصیت کے ساتھ قابل غور ہیں۔ [/FONT]
[FONT="]قیام عکہ کے زمانے میں لوئس نے ایک سفیر سلطانِ دمشق کے پاس بھیجا تھا جس کے ساتھ ایک شخص ایوے لا برتیاں ([/FONT][FONT="]Yevo La Bretan[/FONT][FONT="]) بطور مترجم ساتھ گیا تھا۔ یہ شخص مسیحی واعظوں کے ایک حلقہ سے تعلق رکھتا تھا اور "مسلمانوں کی زبان" سے واقف تھا۔ "مسلمانوں کی زبان" سے مقصود یقیناً عربی ہے۔ ژو این ویل اس سفارت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:[/FONT]
[FONT="]“جب سفیر اپنی قیام گاہ سے سلدان (سلطان) کے محل کی طرف جا رہا تھا تو لا برتیاں کو راستہ میں ایک مسلمان بڑھیا عورت ملی۔ اس کے داہنے ہاتھ میں ایک برتن آگ کا تھا بائیں ہاتھ میں پانی کی صراحی تھی۔ لا برتیاں نے اس عورت سے پوچھا "یہ چیزیں کیوں اور کہاں لے جا رہی ہو؟" عورت نے کہا "میں چاہتی ہوں اِس آگ سے جنت کو جلا دوں اور پانی سے جہنم کی آگ بجھا دوں تاکہ پھر دونوں کا نام و نشان باقی نہ رہے" لا برتیاں نے کہاکہ "تم ایسا کیوں کرنا چاہتی ہو؟" اس نے جواب دیا "اس لیے کہ کسی انسان کے لیے اس کا موقعہ باقی نہ رہے کہ جنت کے لالچ اور جہنم کے ڈر سے نیک کام کرے۔ پھر وہ جو کچھ کرے گا صرف خدا کی محبت کے لیے کریگا۔" ([/FONT][FONT="]Memoires[/FONT][FONT="] of The Crusades: 240[/FONT][FONT="]) [/FONT]
[FONT="]اس روایت کا ایک عجیب پہلو یہ ہے کہ بجنسٖہ یہی عمل اور یہی قول حضرت رابعہ بصریہ سے منقول ہے۔ اِس وقت کتابیں یہاں موجود نہیں، لیکن حافظہ کی مدد لے کر یہ کہہ سکتا ہوں کہ قُشیری، ابو طالب مکی، فرید الدین عطار، صاحب عرائس المجالس، صاحبِ روح البیان اور شعرانی، سب سے یہ مقولہ نقل کیا ہے اور اسے رابعہ بصریہ کے فضائلِ مقامات میں سے قرار دیا ہے۔[/FONT]
[FONT="]رابعہ بصریہ پہلے طبقہ کی کبارِ صُوفیہ میں شمارکی گئی ہیں۔ دوسری صدی ہجری یعنے آٹھویں صدی مسیحی میں ان کا انتقال ہوا۔ اُن کے حالات میں سب لکھتے ہیں کہ ایک دن اِس عالم میں گھر سے نکلیں کہ ایک ہاتھ میں آگ کا برتن تھا دوسرے میں پانی کا کوزہ۔ لوگوں نے پوچھا کہاں جا رہی ہو، جواب میں بجنسٖہ وہی بات کہی جو لا برتیاں نے دمشق کی عورت کی زبانی نقل کی ہے۔ "آگ سے جنت کو جلا دینا چاہتی ہوں، پانی سے دوزخ کی آگ بجھا دینی چاہتی ہوں تاکہ دونوں ختم ہو جائیں اور پھر لوگ عبادت صرف خدا کے لیے کریں۔ جنت اور دوزخ کے طمع و خوف سے نہ کریں۔" قدرتی طور پر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوسری صدی ہجری کی رابعہ بصریہ کا مقولہ کس طرح ساتویں صدی ہجری کی ایک عورت کی زبان پر طاری ہو گیا جو دمشق کی سڑک سے گزر رہی تھی؟ یہ کیا بات ہے کہ تعبیرِ معارف کی ایک خاص تمثیل (پارٹ) جو پانچ سو برس پہلے بصرہ کے ایک کُوچہ میں دکھائی گئی تھی بعینٖہ اب دمشق کی ایک شاہراہ پر دہرائی جا رہی ہے؟ کیا یہ محض افکار و احوال کا تَوَارد ہے، یا تکرار اور نقالی ہے؟ یا پھر راوی کی ایک افسانہ تراشی؟[/FONT]
[FONT="]ہر توجیہ کے لیے قرائن موجود ہیں اور معاملہ مختلف بھیسوں میں سامنے آتا ہے ([/FONT][FONT="]1[/FONT][FONT="]) یہ وہ زمانہ تھا جب صلیبی جماعتوں کی قوت فلسطین میں پاش پاش ہو چکی تھی، ساحل کی ایک چھوٹی سی دھجی کے سوا ان کے قبضہ میں اور کچھ باقی نہیں رہا تھا اور وہاں بھی امن اور چین کی زندگی بسر نہیں کر سکتے تھے۔ رات دن کے لگاتار حملوں اور محاصروں سے پامال ہوتے رہتے تھے۔ لوئس اُن کی اعانت کے لیے آیا لیکن وہ خُود اعانت کا محتاج ہو گیا۔ جنگی قوت کے افلاس سے کہیں زیادہ ان کا اخلاقی افلاس اُنہیں تباہ کر رہا تھا۔ ابتدائی عہد کا مجنونانہ مذہبی جوش و خروش جو تمام یورپ کو بہا لے گیا تھا، اب ٹھنڈا پڑ چکا تھا اور اب اس کی جگہ ذاتی خود غرضیاں اور صلیبی حلقہ بندیوں کی باہمی رقابتیں کام کرنے لگی تھیں، پے در پے شکستوں اور ناکامیوں سے جب ہمتیں پست ہوئیں۔ تو اصل مقصد کی کشش بھی کمزور پڑ گئی اور بدعملیوں اور ہوس رانیوں کا بازار گرم ہو گیا۔ مذہبی پیشواؤں کی حالت امراء اور عوام سے بھی بدتر تھی۔ دینداری کے اخلاص کی جگہ ریاکاری اور نمائش ان کا سرمایۂ پیشوائی تھا۔ ایسے افراد بہت کم تھے جو واقعی مخلص اور پاک عمل ہوں۔ [/FONT]
[FONT="]جب اُس عہد کے مسلمانوں کی زندگی سے اِس صورت حال کا مقابلہ کیا جاتا تھا تو مسیحی زندگی کی مذہبی اور اخلاقی پستی اور زیادہ نمایاں ہونے لگتی تھی۔ مسلمان اب صلیبیوں کے ہمسایہ میں تھے اور التوائے جنگ کے بڑے بڑے وقفوں نے باہمی میل جول کے دروازے دونوں پر کھول دیئے تھے۔ صلیبیوں میں جو لوگ پڑھے لکھے تھے ان میں سے بعض نے شامی عیسائیوں کی مدد سے مسلمانوں کی زبان سیکھ لی تھی اور ان کے مذہبی اور اخلاقی افکار و عقاید سے واقفیت پیدا کرنے لگے تھے۔ کلیسائی واعظوں کے جو حلقے یہاں کام کر رہے تھے اُن میں بھی بعض متجسس طبیعتیں ایسی پیدا ہو گئی تھی جو مسلمان عالموں اور صوفیوں سے ملتیں اور دینی اور اخلاقی مسائل پر مذاکرے کرتیں۔ اِس عہد کے متعدد عالموں اور صوفیوں کے حالات میں ایسی تصریحات ملتی ہیں کہ صلیبی قسیس و رُہبان ان کے پاس آئے اور باہمدگر سوال و جواب ہوئے۔ بعض مسلمان علماء جو صلیبیوں کے ہاتھ گرفتار ہو گئے تھے، عرصہ تک اُن میں رہے اور ان کے مذہبی پیشواؤں سے مذہبی مباحث کئے۔ شیخ سعدی شیرازی کو اسی عہد میں صلیبیوں نے گرفتار کر لیا تھا، اور اُنہیں عرصہ تک طرابلس میں گرفتاری کے دن کاٹنے پڑے تھے۔[/FONT]
[FONT="]اس صورتِ حال کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ صلیبیوں میں جو لوگ مخلص اور اثر پذیر طبیعتیں رکھتے تھے وہ اپنے گروہ کی حالت کا مسلمانوں کی حالت سے مقابلہ کرتے۔ وہ مسلمانوں کا مذہبی اور اخلاقی تفوق دکھا کر عیسائیوں کو غیرت دلاتے کہ اپنی نفس پرستیوں اور بدعملیوں سے باز آئیں اور مسلمانوں کی دیندارانہ زندگی سے عبرت پکڑیں۔ چنانچہ خود ژو این ویل کی سرگزشت میں جا بجا اِس ذہنی انفعال کی جھلک اُبھرتی رہتی ہے۔ متعدد مقام ایسے ملتے ہیں جہاں وہ مسلمانوں کی زبانی اس طرح کے اقوال نقل کرتا ہے جس سے عیسائیوں کے لیے عبرت اور تنبُہ کا پہلو نکلتا ہے۔ اِسی دمشق کی سفارت کے سلسلہ میں اس نے جان دی آرمینین ([/FONT][FONT="]John the Armenian[/FONT][FONT="]) کے سفرِ دمشق کا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ یہ شخص دمشق اس لیے گیا تھا کہ کمانیں بنانے کے لیے سینگ اور سریش خریدے۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے دمشق میں ایک عمر رسیدہ مسلمان ملا جس نے میری وضع قطع دیکھ کر پوچھا "کیا تم مسیحی ہو؟" میں نے کہا ہاں۔ مسلمان شیخ نے کہا "تم مسیحی آپس میں ایک دوسرے سے اب زیادہ نفرت کرنے لگے ہو اسی لیے ذلیل و خوار ہو رہے ہو۔ ایک زمانہ وہ تھا جب میں یروشلم کے صلیبی بادشاہ بالڈوین ([/FONT][FONT="]Baldwin[/FONT][FONT="]) کو دیکھا تھا۔ وہ کوڑھی تھا اور اس کے ساتھ مسلح آدمی صرف تین سو تھے۔ پھر بھی اس نے اپنے جوش و ہمت سے سالادین (صلاح الدین) کو پریشان کر دیا تھا۔ لیکن اب تم اپنے گناہوں کی بدولت اِتنے گِر چکے ہو کہ ہم جنگلی جانوروں کی طرح تمہیں رات دن شکار کرتے رہتے ہیں۔"[/FONT]
[FONT="]پس ممکن ہے کہ لا برتیاں ایسے ہی لوگوں میں سے ہو جنہیں مسلمان صوفیوں کے اعمال و اقوال سے یک گونہ واقفیت حاصل ہو گئی ہو، اور وہ وقت کے ہر معاملہ کو عیسائیوں کی عبرت پذیری کے لیے کام میں لانا چاہتا ہو۔ لا برتیاں کی نسبت ہمیں بتایا گیا ہے کہ مسیحی واعظوں کے حلقہ سے وابستگی رکھتا تھا اور عربی زبان سے واقف تھا۔ کچھ بعید نہیں کہ اُسے اُن خیالات سے واقفیت کا موقع ملا ہو جو اُس عہد کے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں عام طور پر پائے جاتے تھے۔ چونکہ رابعۂ بصریہ کا یہ مقولہ عام طور پر مشہور تھا اور مسلمانوں کے میل جول سے اُس کے علم میں آ چکا تھا، اس لیے سفرِ دمشق کے موقعہ سے فائدہ اٹھا کر اس نے ایک عبرت انگیز کہانی گھڑ لی۔ مقصود یہ تھا کہ عیسائیوں کو دین کے اخلاصِ عمل کی ترغیب دلائی جائے اور دکھایا جائے کہ مسلمانوں میں ایک بڑھیا عورت کے اخلاصِ عمل کا جو درجہ ہے، وہ اُس تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ [/FONT]
[FONT="]یہ بھی ممکن ہے کہ خود ژو این ویل کے علم میں یہ مقولہ آیا ہو اور اس نے لا برتیاں کی طرف منسوب کر کے اسے دمشق کے ایک بروقت واقعہ کی شکل دے دی ہو۔ [/FONT]
[FONT="]ہمیں معلوم ہے کہ انیسویں صدی کے نقادوں نے ژو این ویل کو صلیبی عہد کا ایک ثقہ راوی قرار دیا ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ وہ بظاہر ایک دیندار اور مخلص مسیحی تھا، جیسا کہ اس کی تحریر سے جا بجا مترشح ہوتا ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ ایک دیندار راوی میں دینی و اخلاقی اغراض سے مفید مقصد روایتیں گھڑنے کی استعداد نہ رہی ہو۔ فن روایت کی گہرائیوں کا کچھ عجیب حال ہے۔ نیک سے نیک انسان بھی بعض اوقات جعل و صناعت کے تقاضوں سے اپنی نگرانی نہیں کر سکتے۔ وہ اس دھوکے میں پڑ جاتے ہیں کہ اگر کسی نیک مقصد کے لیے ایک مصلحت آمیز جعلی روایت گھڑ لی جائے تو کوئی برائی کی بات نہیں۔ مسیحی مذہب کے ابتدائی عہدوں میں جن لوگوں نے حواریوں کی نام سے طرح طرح کے نوشتے گھڑے تھے اور جنہیں آگے چل کر کلیسا نے غیر معروف و مدفون ([/FONT][FONT="]Apocrypha[/FONT][FONT="]) نوشتوں میں شمار کیا، وہ یقینا بڑے ہی دیندار اور مقدس آدمی تھے۔ تاہم یہ دینداری انہیں اس بات سے نہ روک سکی کہ حواریوں کے نام سے جعلی نوشتے تیار کر لیں۔ [/FONT]
[FONT="]تاریخ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں جن لوگوں نے بے شمار جھوٹی حدیثیں بنائیں، ان میں ایک گروہ دیندار واعظوں اور مقدس زاہدوں کا بھی تھا۔ وہ خیال کرتے تھے کہ لوگوں میں دینداری اور نیک عملی کا شوق پیدا کرنے کے لیے جھوٹی حدیثیں گھڑ کر سنانا کوئی برائی کی بات نہیں۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل کو کہنا پڑا کہ حدیث کے واعظوں میں سب سے زیادہ خطرناک گروہ ایسے ہی لوگوں کا ہے۔ [/FONT]
[FONT="]اس سلسلہ میں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ یہ زمانہ یعنی ساتویں صدی ہجری کا زمانہ صوفیانہ افکار و اعمال کے شیوع و احاطہ کا زمانہ تھا۔ تمام عالم اسلامی خصوصاً بلاد مصر و شام میں وقت کی مذہبی زندگی کا عام رجحان تصوف اور تصوف آمیز خیالات کی طرف جا رہا تھا۔ ہر جگہ کثرت کے ساتھ خانقاہیں بن گئی تھیں۔ اور عوام اور امراء دونوں کی عقیدت مندیاں انہیں حاصل تھیں، تصوف کی اکثر متداول مصنفات تقریبا اسی صدی اور اس کے بعد کی صدی میں مدون ہوئیں۔ حافظ ذہبی جنہوں نے اس زمانہ سے ساٹھ ستر برس بعد اپنی مشہور تاریخ لکھی ہے۔ لکھتے ہیں کہ اس عہد کےتما م لوگ اور امراء اسلام صوفیوں کے زیر اثر تھے۔ مقریزی نے تاریخ مصر میں جن خانقاہوں کا حال لکھا ہے۔ ان کی بڑی تعداد تقریبات اسی عہد کی پیداوار ہے۔ ایسی حالت میں یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں کہ جن صلیبیوں کو مسلمانوں کے خیالات سے واقفیت حاصل کرنے کا موقعہ ملا ہو، وہ مسلمان صوفیوں کے اقوال پر مطلع ہو گئے ہوں کیونکہ وقت کا عام رنگ یہی تھا۔[/FONT]
[FONT="]2: یہ بھی ممکن ہےکہ لابرتیاں ایسے لوگوں میں سے ہو جن میں افسانہ سرائی اور حکایت سازی کا ایک قدرتی تقاضا پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ بغیر کسی مقصد کے بھی محض سامعین کا ذوق و استعجاب حاصل کرنے کے لیے فرضی واقعات گھڑ لیا کرتے ہیں دنیا میں فن روایت کی آدھی غلط بیانیاں راویوں کے اسی جذبۂ داستاں سرائی سے پیدا ہوئیں۔ مسلمانوں میں وعاظ و قصاص کا گروہ یعنی واعظوں اور قصہ گویوں کا گروہ محض سامعین کے استعجاب و توجہ کی تحریک کے لیے سیکڑوں روایتیں برجستہ گھڑ لیا کرتا تھا اور پھر وہی روایتیں قید کتابت میں آ کر ایک طرح کے نیم تاریخی مواد کی نوعیت پیدا کر لیتی تھیں۔ ملا معین واعظ کاشفی وغیرہ کی مصنفات ایسے قصوں سے بھری ہوئی ہیں۔ [/FONT]
[FONT="]3: یہ بھی ممکن ہے کہ واقعہ صحیح ہو، اور اس عہد میں ایک صوفی عورت موجود ہو جس نے رابعہ بصریہ والی بات بطور نقل و اتباع کے یا واقعی اپنے استغراق حاصل کی بنا پر دہرا دی ہے۔ [/FONT]
[FONT="]افکار و احوال کے اشباہ و امثال ہمیشہ مختلف وقتوں اور مختلف شخصیتوں میں سر اٹھاتے رہتے ہیں اور فکر و نظر کے میدان سے کہیں زیادہ احوال و واردات کا میدان اپنی یک رنگیاں اور ہم آہنگیاں رکھتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ساتویں صدی کی ایک صاحب حال عورت کی زبان سے بھی اخلاق عمل اور عشق الہی کی وہی تعبیر نکل گئی ہو جو دوسری صدی کی رابعہ بصریہ کی زبان سے نکلی تھی۔ افسوس ہے کہ یہاں کتابیں موجود نہیں ہیں ورنہ ممکن تھا کہ اس عہد کے صوفیاء دمشق کے حالات میں کوئی سراغ مل جاتا۔ ساتویں صدی کا دمشق تصوف و اصحاب تصوف کا دمشق تھا۔[/FONT]
[FONT="]یہ یاد رہے کہ تذکروں میں ایک رابعہ شامیہ کا بھی حال ملتا ہے۔اگر میرا حافظہ غلطی نہیں کرتا تو جامی نے بھی نفحات کے آخر میں ان کا ترجمہ لکھا ہے۔ لیکن ان کا عہد اس سےبہت پیشتر کا ہے۔ اس عہد کے شام میں ان کی موجودگی تصور میں نہیں لائی جا سکتی۔ [/FONT]
[FONT="]4: آخری امکانی صورت جو سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس عہد میں کوئی نمائش پسند عورت تھی جو بطور نقالی کے صوفیوں کے پارٹ دکھایا کرتی تھی، اور وہ لابرتیاں سے دو چار ہو گغی۔ یا یہ سن کر کہ عکہ کی مسیحی سفارت آ رہی ہے قصداً اس کی راہ میں آ گئی۔ مگر یہ سب سے زیادہ بعید اور دور از قرائن صورت ہے جو ذہن میں آ سکتی ہے۔ [/FONT]
[FONT="]5[/FONT][FONT="] دسمبر [/FONT][FONT="]1942[/FONT][FONT="]ء [/FONT]
[FONT="]صدیق مکرم[/FONT]
[FONT="]پانچویں صلیبی حملہ کی سرگزشت ایک فرانسیسی مجاہد "[/FONT][FONT="]Crusader[/FONT][FONT="]' ژے آن دو ژواین ویل([/FONT][FONT="]Jean De Jain Ville[/FONT][FONT="]) نامی نے بطور یادداشت کے قلم بند کی ہے۔ اس کے کئی انگریزی ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔ زیادہ متداول نسخہ ایوری مینس لائبریری کا ہے۔[/FONT]
[FONT="]پانچواں صلیبی حملہ سینٹ لوئس ([/FONT][FONT="]Lewis[/FONT][FONT="]) شاہ فرانس نے براہ راست مصر پر کیا تھا۔ دمیاط ([/FONT][FONT="]Demietta[/FONT][FONT="]) کا عارضی قبضہ، قاہرہ کی طرف اقدام، ساحل نیل کی لڑائی، صلیبیوں کی شکست، خود سینٹ لوئس کی گرفتاری اور زرِ فدیہ کے معاہدہ پر رہائی، تاریخ کے مشہور واقعات ہیں، اور عرب مؤرخوں نے ان کی تمام تفصیلات قلم بند کی ہیں۔ لوئس رہائی کے بعد عکہ ([/FONT][FONT="]Acre[/FONT][FONT="]) آیا جو چند دوسرے ساحلی مقامات کے ساتھ صلیبیوں کے قبضہ میں باقی رہ گیا تھا، اور کئی سال وہاں مقیم رہا۔ ژواین ویل نے یہ تمام زمانہ لوئس کی ہمراہی میں بسر کیا۔ مصر اور عکہ کے تمام اہم واقعات اس کے چشم دید واقعات ہیں۔ [/FONT]
[FONT="]لوئس [/FONT][FONT="]1248[/FONT][FONT="]ء میں فرانس سے روانہ ہوا۔ دوسرے سال دمیاط پہنچا۔ تیسرے سال عکہ، پھر [/FONT][FONT="]1254[/FONT][FONT="]ء میں فرانس واپس ہوا۔ یہ سنین اگر ہجری سنین سے مطابق کیے جائیں تو تقریبا [/FONT][FONT="]646[/FONT][FONT="]ھ اور [/FONT][FONT="]656[/FONT][FONT="]ھ ہوتے ہیں۔ [/FONT]
[FONT="]ژواین ویل جب لوئس کے ہمراہ فرانس سے روانہ ہوا تو اس کی عمر چوبیس برس کی تھی۔ لیکن یہ یادداشت اس نے بہت عرصہ کے بعد اپنی زندگی کے آخری سالوں میں لکھی۔ یعنے [/FONT][FONT="]1309[/FONT][FONT="]ء ([/FONT][FONT="]708[/FONT][FONT="]ھ) میں۔ جب اس کی عمر خود اس کی تصریح کے مطابق پچاسی برس کی ہو چکی تھی، اور صلیبی حملہ کے واقعات پر نصف صدی کی مدت گذر چکی تھی، اس طرح کوئی تصریح موجود نہیں جس کی بنا پر خیال کیا جا سکے کہ مصر اور فلسطین کے قیام کے زمانہ میں وہ اہم واقعات قلم بند کر لیا کرتا تھا۔ پس جو کچھ اس نے لکھا ہے، وہ پچاس برس پیشتر کے حوادث کی ایک ایسی روایت ہے، جو اس کے حافظہ نے محفوظ کر لی تھی، با ایں ہمہ اس کے بیانات جہاں تک واقعات جنگ کا تعلق ہے، عام طور پر قابلِ وثوق تسلیم کیے گئے ہیں۔ [/FONT]
[FONT="]مسلمانوں کے دینی عقاید و اعمال اور اخلاق و عادات کی نسبت اس کی معلومات ازمنۂ وسطی کی عام فرنگی معلومات سے چنداں مختلف نہیں۔ تاہم درجہ کا فرق ضرور ہے چونکہ اب یورپ اور مشرق وسط[/FONT][FONT="]یٰ[/FONT][FONT="] کے باہمی تعلقات جو صلیبی لڑائیوں کے سائے میں نشوونما پائے رہے تھے۔ تقریبا ڈیڑھ سو برس کا زمانہ گذر چکا تھا، اور فلسطین کے نو آباد صلیبی مجاہد اب مسلمانوں کو زیادہ قریب ہو کر دیکھنے لگے تھے، اس لیے قدرتی طور پر ژو این ویل کے ذہنی تاثرات کی نوعیت سے مختلف دکھائی دیتی ہے جو ابتدائی عہد کے صلیبیوں کے رہ چکے ہیں، مسلمان کافر ہیں، ہیدین ([/FONT][FONT="]Heathen[/FONT][FONT="]) ہیں، پے نیم ([/FONT][FONT="]Paynim[/FONT][FONT="]) ہیں، پے گن ([/FONT][FONT="]Pagan[/FONT][FONT="]) ہیں، مسیح کے دشمن ہیں۔ تاہم کچھ اچھی باتیں بھی انکی نسبت خیال میں لائی جا سکتی ہیں اور ان کے طور طریقہ میں تمام باتیں بری نہیں ہیں۔ مصری حکومت اور اس کے ملکی اور فوجی نظام کے بارے میں اس نے جو کچھ لکھا ہے وہ ستر فیصد کے قریب صحیح ہے۔ لیکن مسلمانوں کے دینی عقاید و اعمال کے بیانات میں پچیس فیصد سے زیادہ صحت نہیں۔ پہلی معلومات غالباً اس کی ذاتی ہیں، اس لیے صحت سے قریب تر ہیں۔ دوسری معلومات زیادہ تر فلسطین کے کلیسائی حلقوں سے حاصل کی گئی ہیں، اس لیے تعصّب و نفرت پر مبنی ہیں۔ اس عہد کی عام فضا دیکھتے ہوئے یہ صورتِ حال چنداں تعجّب انگیز نہیں۔ [/FONT]
[FONT="]ایک عرصہ کے بعد مجھے اس کتاب کے دیکھنے کا یہاں پھر اتفاق ہوا۔ ایک رفیقِ زنداں نے ایوری مینس لائبریری کی کچھ کتابیں منگوائی تھیں، ان میں یہ بھی آ گئی۔ اس سلسلہ میں دو خصوصیت کے ساتھ قابل غور ہیں۔ [/FONT]
[FONT="]قیام عکہ کے زمانے میں لوئس نے ایک سفیر سلطانِ دمشق کے پاس بھیجا تھا جس کے ساتھ ایک شخص ایوے لا برتیاں ([/FONT][FONT="]Yevo La Bretan[/FONT][FONT="]) بطور مترجم ساتھ گیا تھا۔ یہ شخص مسیحی واعظوں کے ایک حلقہ سے تعلق رکھتا تھا اور "مسلمانوں کی زبان" سے واقف تھا۔ "مسلمانوں کی زبان" سے مقصود یقیناً عربی ہے۔ ژو این ویل اس سفارت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:[/FONT]
[FONT="]“جب سفیر اپنی قیام گاہ سے سلدان (سلطان) کے محل کی طرف جا رہا تھا تو لا برتیاں کو راستہ میں ایک مسلمان بڑھیا عورت ملی۔ اس کے داہنے ہاتھ میں ایک برتن آگ کا تھا بائیں ہاتھ میں پانی کی صراحی تھی۔ لا برتیاں نے اس عورت سے پوچھا "یہ چیزیں کیوں اور کہاں لے جا رہی ہو؟" عورت نے کہا "میں چاہتی ہوں اِس آگ سے جنت کو جلا دوں اور پانی سے جہنم کی آگ بجھا دوں تاکہ پھر دونوں کا نام و نشان باقی نہ رہے" لا برتیاں نے کہاکہ "تم ایسا کیوں کرنا چاہتی ہو؟" اس نے جواب دیا "اس لیے کہ کسی انسان کے لیے اس کا موقعہ باقی نہ رہے کہ جنت کے لالچ اور جہنم کے ڈر سے نیک کام کرے۔ پھر وہ جو کچھ کرے گا صرف خدا کی محبت کے لیے کریگا۔" ([/FONT][FONT="]Memoires[/FONT][FONT="] of The Crusades: 240[/FONT][FONT="]) [/FONT]
[FONT="]اس روایت کا ایک عجیب پہلو یہ ہے کہ بجنسٖہ یہی عمل اور یہی قول حضرت رابعہ بصریہ سے منقول ہے۔ اِس وقت کتابیں یہاں موجود نہیں، لیکن حافظہ کی مدد لے کر یہ کہہ سکتا ہوں کہ قُشیری، ابو طالب مکی، فرید الدین عطار، صاحب عرائس المجالس، صاحبِ روح البیان اور شعرانی، سب سے یہ مقولہ نقل کیا ہے اور اسے رابعہ بصریہ کے فضائلِ مقامات میں سے قرار دیا ہے۔[/FONT]
[FONT="]رابعہ بصریہ پہلے طبقہ کی کبارِ صُوفیہ میں شمارکی گئی ہیں۔ دوسری صدی ہجری یعنے آٹھویں صدی مسیحی میں ان کا انتقال ہوا۔ اُن کے حالات میں سب لکھتے ہیں کہ ایک دن اِس عالم میں گھر سے نکلیں کہ ایک ہاتھ میں آگ کا برتن تھا دوسرے میں پانی کا کوزہ۔ لوگوں نے پوچھا کہاں جا رہی ہو، جواب میں بجنسٖہ وہی بات کہی جو لا برتیاں نے دمشق کی عورت کی زبانی نقل کی ہے۔ "آگ سے جنت کو جلا دینا چاہتی ہوں، پانی سے دوزخ کی آگ بجھا دینی چاہتی ہوں تاکہ دونوں ختم ہو جائیں اور پھر لوگ عبادت صرف خدا کے لیے کریں۔ جنت اور دوزخ کے طمع و خوف سے نہ کریں۔" قدرتی طور پر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوسری صدی ہجری کی رابعہ بصریہ کا مقولہ کس طرح ساتویں صدی ہجری کی ایک عورت کی زبان پر طاری ہو گیا جو دمشق کی سڑک سے گزر رہی تھی؟ یہ کیا بات ہے کہ تعبیرِ معارف کی ایک خاص تمثیل (پارٹ) جو پانچ سو برس پہلے بصرہ کے ایک کُوچہ میں دکھائی گئی تھی بعینٖہ اب دمشق کی ایک شاہراہ پر دہرائی جا رہی ہے؟ کیا یہ محض افکار و احوال کا تَوَارد ہے، یا تکرار اور نقالی ہے؟ یا پھر راوی کی ایک افسانہ تراشی؟[/FONT]
[FONT="]ہر توجیہ کے لیے قرائن موجود ہیں اور معاملہ مختلف بھیسوں میں سامنے آتا ہے ([/FONT][FONT="]1[/FONT][FONT="]) یہ وہ زمانہ تھا جب صلیبی جماعتوں کی قوت فلسطین میں پاش پاش ہو چکی تھی، ساحل کی ایک چھوٹی سی دھجی کے سوا ان کے قبضہ میں اور کچھ باقی نہیں رہا تھا اور وہاں بھی امن اور چین کی زندگی بسر نہیں کر سکتے تھے۔ رات دن کے لگاتار حملوں اور محاصروں سے پامال ہوتے رہتے تھے۔ لوئس اُن کی اعانت کے لیے آیا لیکن وہ خُود اعانت کا محتاج ہو گیا۔ جنگی قوت کے افلاس سے کہیں زیادہ ان کا اخلاقی افلاس اُنہیں تباہ کر رہا تھا۔ ابتدائی عہد کا مجنونانہ مذہبی جوش و خروش جو تمام یورپ کو بہا لے گیا تھا، اب ٹھنڈا پڑ چکا تھا اور اب اس کی جگہ ذاتی خود غرضیاں اور صلیبی حلقہ بندیوں کی باہمی رقابتیں کام کرنے لگی تھیں، پے در پے شکستوں اور ناکامیوں سے جب ہمتیں پست ہوئیں۔ تو اصل مقصد کی کشش بھی کمزور پڑ گئی اور بدعملیوں اور ہوس رانیوں کا بازار گرم ہو گیا۔ مذہبی پیشواؤں کی حالت امراء اور عوام سے بھی بدتر تھی۔ دینداری کے اخلاص کی جگہ ریاکاری اور نمائش ان کا سرمایۂ پیشوائی تھا۔ ایسے افراد بہت کم تھے جو واقعی مخلص اور پاک عمل ہوں۔ [/FONT]
[FONT="]جب اُس عہد کے مسلمانوں کی زندگی سے اِس صورت حال کا مقابلہ کیا جاتا تھا تو مسیحی زندگی کی مذہبی اور اخلاقی پستی اور زیادہ نمایاں ہونے لگتی تھی۔ مسلمان اب صلیبیوں کے ہمسایہ میں تھے اور التوائے جنگ کے بڑے بڑے وقفوں نے باہمی میل جول کے دروازے دونوں پر کھول دیئے تھے۔ صلیبیوں میں جو لوگ پڑھے لکھے تھے ان میں سے بعض نے شامی عیسائیوں کی مدد سے مسلمانوں کی زبان سیکھ لی تھی اور ان کے مذہبی اور اخلاقی افکار و عقاید سے واقفیت پیدا کرنے لگے تھے۔ کلیسائی واعظوں کے جو حلقے یہاں کام کر رہے تھے اُن میں بھی بعض متجسس طبیعتیں ایسی پیدا ہو گئی تھی جو مسلمان عالموں اور صوفیوں سے ملتیں اور دینی اور اخلاقی مسائل پر مذاکرے کرتیں۔ اِس عہد کے متعدد عالموں اور صوفیوں کے حالات میں ایسی تصریحات ملتی ہیں کہ صلیبی قسیس و رُہبان ان کے پاس آئے اور باہمدگر سوال و جواب ہوئے۔ بعض مسلمان علماء جو صلیبیوں کے ہاتھ گرفتار ہو گئے تھے، عرصہ تک اُن میں رہے اور ان کے مذہبی پیشواؤں سے مذہبی مباحث کئے۔ شیخ سعدی شیرازی کو اسی عہد میں صلیبیوں نے گرفتار کر لیا تھا، اور اُنہیں عرصہ تک طرابلس میں گرفتاری کے دن کاٹنے پڑے تھے۔[/FONT]
[FONT="]اس صورتِ حال کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ صلیبیوں میں جو لوگ مخلص اور اثر پذیر طبیعتیں رکھتے تھے وہ اپنے گروہ کی حالت کا مسلمانوں کی حالت سے مقابلہ کرتے۔ وہ مسلمانوں کا مذہبی اور اخلاقی تفوق دکھا کر عیسائیوں کو غیرت دلاتے کہ اپنی نفس پرستیوں اور بدعملیوں سے باز آئیں اور مسلمانوں کی دیندارانہ زندگی سے عبرت پکڑیں۔ چنانچہ خود ژو این ویل کی سرگزشت میں جا بجا اِس ذہنی انفعال کی جھلک اُبھرتی رہتی ہے۔ متعدد مقام ایسے ملتے ہیں جہاں وہ مسلمانوں کی زبانی اس طرح کے اقوال نقل کرتا ہے جس سے عیسائیوں کے لیے عبرت اور تنبُہ کا پہلو نکلتا ہے۔ اِسی دمشق کی سفارت کے سلسلہ میں اس نے جان دی آرمینین ([/FONT][FONT="]John the Armenian[/FONT][FONT="]) کے سفرِ دمشق کا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ یہ شخص دمشق اس لیے گیا تھا کہ کمانیں بنانے کے لیے سینگ اور سریش خریدے۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے دمشق میں ایک عمر رسیدہ مسلمان ملا جس نے میری وضع قطع دیکھ کر پوچھا "کیا تم مسیحی ہو؟" میں نے کہا ہاں۔ مسلمان شیخ نے کہا "تم مسیحی آپس میں ایک دوسرے سے اب زیادہ نفرت کرنے لگے ہو اسی لیے ذلیل و خوار ہو رہے ہو۔ ایک زمانہ وہ تھا جب میں یروشلم کے صلیبی بادشاہ بالڈوین ([/FONT][FONT="]Baldwin[/FONT][FONT="]) کو دیکھا تھا۔ وہ کوڑھی تھا اور اس کے ساتھ مسلح آدمی صرف تین سو تھے۔ پھر بھی اس نے اپنے جوش و ہمت سے سالادین (صلاح الدین) کو پریشان کر دیا تھا۔ لیکن اب تم اپنے گناہوں کی بدولت اِتنے گِر چکے ہو کہ ہم جنگلی جانوروں کی طرح تمہیں رات دن شکار کرتے رہتے ہیں۔"[/FONT]
[FONT="]پس ممکن ہے کہ لا برتیاں ایسے ہی لوگوں میں سے ہو جنہیں مسلمان صوفیوں کے اعمال و اقوال سے یک گونہ واقفیت حاصل ہو گئی ہو، اور وہ وقت کے ہر معاملہ کو عیسائیوں کی عبرت پذیری کے لیے کام میں لانا چاہتا ہو۔ لا برتیاں کی نسبت ہمیں بتایا گیا ہے کہ مسیحی واعظوں کے حلقہ سے وابستگی رکھتا تھا اور عربی زبان سے واقف تھا۔ کچھ بعید نہیں کہ اُسے اُن خیالات سے واقفیت کا موقع ملا ہو جو اُس عہد کے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں عام طور پر پائے جاتے تھے۔ چونکہ رابعۂ بصریہ کا یہ مقولہ عام طور پر مشہور تھا اور مسلمانوں کے میل جول سے اُس کے علم میں آ چکا تھا، اس لیے سفرِ دمشق کے موقعہ سے فائدہ اٹھا کر اس نے ایک عبرت انگیز کہانی گھڑ لی۔ مقصود یہ تھا کہ عیسائیوں کو دین کے اخلاصِ عمل کی ترغیب دلائی جائے اور دکھایا جائے کہ مسلمانوں میں ایک بڑھیا عورت کے اخلاصِ عمل کا جو درجہ ہے، وہ اُس تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ [/FONT]
[FONT="]یہ بھی ممکن ہے کہ خود ژو این ویل کے علم میں یہ مقولہ آیا ہو اور اس نے لا برتیاں کی طرف منسوب کر کے اسے دمشق کے ایک بروقت واقعہ کی شکل دے دی ہو۔ [/FONT]
[FONT="]ہمیں معلوم ہے کہ انیسویں صدی کے نقادوں نے ژو این ویل کو صلیبی عہد کا ایک ثقہ راوی قرار دیا ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ وہ بظاہر ایک دیندار اور مخلص مسیحی تھا، جیسا کہ اس کی تحریر سے جا بجا مترشح ہوتا ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ ایک دیندار راوی میں دینی و اخلاقی اغراض سے مفید مقصد روایتیں گھڑنے کی استعداد نہ رہی ہو۔ فن روایت کی گہرائیوں کا کچھ عجیب حال ہے۔ نیک سے نیک انسان بھی بعض اوقات جعل و صناعت کے تقاضوں سے اپنی نگرانی نہیں کر سکتے۔ وہ اس دھوکے میں پڑ جاتے ہیں کہ اگر کسی نیک مقصد کے لیے ایک مصلحت آمیز جعلی روایت گھڑ لی جائے تو کوئی برائی کی بات نہیں۔ مسیحی مذہب کے ابتدائی عہدوں میں جن لوگوں نے حواریوں کی نام سے طرح طرح کے نوشتے گھڑے تھے اور جنہیں آگے چل کر کلیسا نے غیر معروف و مدفون ([/FONT][FONT="]Apocrypha[/FONT][FONT="]) نوشتوں میں شمار کیا، وہ یقینا بڑے ہی دیندار اور مقدس آدمی تھے۔ تاہم یہ دینداری انہیں اس بات سے نہ روک سکی کہ حواریوں کے نام سے جعلی نوشتے تیار کر لیں۔ [/FONT]
[FONT="]تاریخ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں جن لوگوں نے بے شمار جھوٹی حدیثیں بنائیں، ان میں ایک گروہ دیندار واعظوں اور مقدس زاہدوں کا بھی تھا۔ وہ خیال کرتے تھے کہ لوگوں میں دینداری اور نیک عملی کا شوق پیدا کرنے کے لیے جھوٹی حدیثیں گھڑ کر سنانا کوئی برائی کی بات نہیں۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل کو کہنا پڑا کہ حدیث کے واعظوں میں سب سے زیادہ خطرناک گروہ ایسے ہی لوگوں کا ہے۔ [/FONT]
[FONT="]اس سلسلہ میں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ یہ زمانہ یعنی ساتویں صدی ہجری کا زمانہ صوفیانہ افکار و اعمال کے شیوع و احاطہ کا زمانہ تھا۔ تمام عالم اسلامی خصوصاً بلاد مصر و شام میں وقت کی مذہبی زندگی کا عام رجحان تصوف اور تصوف آمیز خیالات کی طرف جا رہا تھا۔ ہر جگہ کثرت کے ساتھ خانقاہیں بن گئی تھیں۔ اور عوام اور امراء دونوں کی عقیدت مندیاں انہیں حاصل تھیں، تصوف کی اکثر متداول مصنفات تقریبا اسی صدی اور اس کے بعد کی صدی میں مدون ہوئیں۔ حافظ ذہبی جنہوں نے اس زمانہ سے ساٹھ ستر برس بعد اپنی مشہور تاریخ لکھی ہے۔ لکھتے ہیں کہ اس عہد کےتما م لوگ اور امراء اسلام صوفیوں کے زیر اثر تھے۔ مقریزی نے تاریخ مصر میں جن خانقاہوں کا حال لکھا ہے۔ ان کی بڑی تعداد تقریبات اسی عہد کی پیداوار ہے۔ ایسی حالت میں یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں کہ جن صلیبیوں کو مسلمانوں کے خیالات سے واقفیت حاصل کرنے کا موقعہ ملا ہو، وہ مسلمان صوفیوں کے اقوال پر مطلع ہو گئے ہوں کیونکہ وقت کا عام رنگ یہی تھا۔[/FONT]
[FONT="]2: یہ بھی ممکن ہےکہ لابرتیاں ایسے لوگوں میں سے ہو جن میں افسانہ سرائی اور حکایت سازی کا ایک قدرتی تقاضا پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ بغیر کسی مقصد کے بھی محض سامعین کا ذوق و استعجاب حاصل کرنے کے لیے فرضی واقعات گھڑ لیا کرتے ہیں دنیا میں فن روایت کی آدھی غلط بیانیاں راویوں کے اسی جذبۂ داستاں سرائی سے پیدا ہوئیں۔ مسلمانوں میں وعاظ و قصاص کا گروہ یعنی واعظوں اور قصہ گویوں کا گروہ محض سامعین کے استعجاب و توجہ کی تحریک کے لیے سیکڑوں روایتیں برجستہ گھڑ لیا کرتا تھا اور پھر وہی روایتیں قید کتابت میں آ کر ایک طرح کے نیم تاریخی مواد کی نوعیت پیدا کر لیتی تھیں۔ ملا معین واعظ کاشفی وغیرہ کی مصنفات ایسے قصوں سے بھری ہوئی ہیں۔ [/FONT]
[FONT="]3: یہ بھی ممکن ہے کہ واقعہ صحیح ہو، اور اس عہد میں ایک صوفی عورت موجود ہو جس نے رابعہ بصریہ والی بات بطور نقل و اتباع کے یا واقعی اپنے استغراق حاصل کی بنا پر دہرا دی ہے۔ [/FONT]
[FONT="]افکار و احوال کے اشباہ و امثال ہمیشہ مختلف وقتوں اور مختلف شخصیتوں میں سر اٹھاتے رہتے ہیں اور فکر و نظر کے میدان سے کہیں زیادہ احوال و واردات کا میدان اپنی یک رنگیاں اور ہم آہنگیاں رکھتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ساتویں صدی کی ایک صاحب حال عورت کی زبان سے بھی اخلاق عمل اور عشق الہی کی وہی تعبیر نکل گئی ہو جو دوسری صدی کی رابعہ بصریہ کی زبان سے نکلی تھی۔ افسوس ہے کہ یہاں کتابیں موجود نہیں ہیں ورنہ ممکن تھا کہ اس عہد کے صوفیاء دمشق کے حالات میں کوئی سراغ مل جاتا۔ ساتویں صدی کا دمشق تصوف و اصحاب تصوف کا دمشق تھا۔[/FONT]
[FONT="]یہ یاد رہے کہ تذکروں میں ایک رابعہ شامیہ کا بھی حال ملتا ہے۔اگر میرا حافظہ غلطی نہیں کرتا تو جامی نے بھی نفحات کے آخر میں ان کا ترجمہ لکھا ہے۔ لیکن ان کا عہد اس سےبہت پیشتر کا ہے۔ اس عہد کے شام میں ان کی موجودگی تصور میں نہیں لائی جا سکتی۔ [/FONT]
[FONT="]4: آخری امکانی صورت جو سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس عہد میں کوئی نمائش پسند عورت تھی جو بطور نقالی کے صوفیوں کے پارٹ دکھایا کرتی تھی، اور وہ لابرتیاں سے دو چار ہو گغی۔ یا یہ سن کر کہ عکہ کی مسیحی سفارت آ رہی ہے قصداً اس کی راہ میں آ گئی۔ مگر یہ سب سے زیادہ بعید اور دور از قرائن صورت ہے جو ذہن میں آ سکتی ہے۔ [/FONT]