غبار خاطر صفحہ نمبر 188

ذیشان حیدر

محفلین
صفحہ نمبر188
کل ایک زیر تسوید کتاب کا ایک خاص مقام لکھ رہا تھا کہ مبحث کی مناسبت سے قول مندرجہ صدر ذہن میں تازہ ہوگیا اور اس وقت حسب معمول صبح کو لکھنے بیٹھا تو بے اختیار سامنے آگیا ۔ آئیے، آج تھوڑی دیر کے لیے رک کر اس معاملہ پر غور کر لیں ۔ ایک ادیب ، ایک شاعر، ایک مصور، ایک اہل قلم کی ''انانیت'' (Egoism)کیا ہے؟ ابھی نہ تو فلسفہ و اخلاق کے مذاہب اَنا(Egoism)کا رخ کیجئے، نہ ''خودی'' (I amness)مصطلحہ تصوف میں جائیے۔ صرف ایک عالم تحلیلی زاؤیہ نگاہ سے معاملہ کو دیکھیے۔ آپ کو صاف دکھائی دے گا کہ یہ انانیت دراصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس کی فکری انفرادیت کا ایک قدرتی سرجوش ہے جسے وہ دبا نہیں سکتا۔ اگر دبانا چاہتا ہے تو اور زیادہ ابھرنے لگتی ہے اور اپنی ہستی کا اثبات کرتی ہے۔ ابو العلاء معری نے جب اپنا مشہور لامیہ کہا تھا :۳؎
(۳۰۷)
الافی سبیل المجد ما انا فاعل
عفاق واقدام و خزم و فائل
یا جب ابو فراس حمدانی نے اپنالافانی رایتہ کہا ۴؎
(۳۰۸)
اراک عصی الامع شیمتک الصبر
اماللھویٰ نھی علیک ولاامر
یا جب ابن سناء الملک نے اپنے زمانہ کو مخاطب کیا تھا :۵؎
وانک عبدی یا زمان ، واننی
علی الرغم منی ان اویٰ لک سیدا
(۳۰۹)
وما انارامن اننی و اطی الثریٰ
ولی ھمتہ لا ترتضی الال فق مقعدا
یا جب فردوسی کے قلم سے نکلا تھا :
(۳۱۰)
بسے زنج بردم دریں سال سی
عجم زندہ کردم بدیں پارسی!۶؎
یا مثلاً فیضی نے نل دمن نظم کرتے ہوئے یہ اشعار کہے تھے:۷؎
(۳۱۱)
امروزنہ شاعرم ، حکیم دانندئہ حادث و قدیحم
 
Top