غبار خاطر صفحہ نمبر 189

ذیشان حیدر

محفلین
صفحہ نمبر189
ہرمُوئے زمن تمام گوش ست خاموشی من بصد خروش ست
ایں بادہ کہ جوشداز ایاغم خونے ست چکیدہ از و ماغم
صد دیدہ بہ درطہ دل افتاد کیس موج گہر بساحل افتاد
بگد اختہ آبگینہئ دل آئینہ دہم بدستِ محفل
آنم کہ بسحر کاریئ ژوف از شعلہ تراش کردہ ام حرف
بانگ قلمم دریں شب تار بس معنیئ خفتہ کردہ بیدار
می ریخت ز سحرکاری ژوف از صبح ستارہ و زمن حرف
ہر نغمہ کہ بستہ ام بریں تار ناقوس نہفتہ ام بہ زنار
ایں گل کہ بہ بوستاں نثاری ست ازمن بہ بہار یادگاری ست
یا جب ہمارے میر انیس نے کہا تھا ۸؎
لگا رہا ہوں مضامین نوکے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
تو یہ محض شاعرانہ تعلیاں نہ تھیں؛ یہ ان کی پرجوش انفرادیت تھی، جو بے اختیار چیخ رہی تھی!
لیکن ساتھ ہی ہم دیکھتے ہیں، انانیت کا یہ شعور کچھ اس نوعیت کا واقع ہوا ہے کہ ہر انفرادی انانیت اپنے اندرونی آئینہ میں جو عکس ڈالتی ہے، بیرونی آئینوں میں اس سے بالکل اُلٹا عکس پڑنے لگتا ہے ۔ اندر کے آئینہ میں ایک بڑا وجود دکھائی دیتا ہے ، باہر کے تمام آئینوں میں ایک چھوٹی سے چھوٹی شکل ابھرنے لگتی ہے:
خود آئینہ دارد کہ محروم ست اظہارش۹؎
یہی صورت حال ہے جہاں سے ہر مصنف کی جو خود اپنی نسبت کچھ کہنا چاہتا ہے، ساری مشکلیں اُبھرنی شروع ہو جاتی ہیں ۔ وہ جبکہ خود اپنے عکس کو جو اس کے اندرونی آئینہ میں پڑ رہا ہے، جھٹلا نہیں سکتا ، تو اچانک کیا دیکھتا ہے کہ باہر کے تمام آئینے اسے جھٹلا رہے ہیں ۔ جو ''میں'' خود اس کے لیے بے حد اہمیت رکھتی ہے، وہی دوسروں کی نگاہوں میں یکسر غیر اہم ہو رہی ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک ایسی حالت میں محسوس کرنے لگتا ہے ، جیسے ایک
 
Top