ذیشان حیدر
محفلین
صفحہ نمبر190
مصور تصویر کھینچنے کے لیے موقلم اُٹھائے، مگر اسے یقین ہو کہ میں کتنی ہی مصورانہ قوت کا م میں لاؤں ، میری نگاہ کے سوا اور کوئی نگاہ اس مرقع کی دلآویزی نہیں دیکھ سکے گی:
(۳۱۳)
آئینہ نقشِ بند طلسمِ خیال نیست
تصویر خود بلوحِ دگر می کشیم ما۱۰؎
اس مشکل سے صڑف خال خال مصنف ہی عہدہ برآ ہوسکتے ہیں اور ہوئے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی ''انانیت'' کو بغیر کسی نمائشی وضع میں سجائے ، دوسروں کے سامنے لے آنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ دنیا کے سامنے ان کی ''انانیت''آئی مگر اس طرح آئی، جیسے ایک بے تکلف آدمی بغیر سج دھج بنائے سامنے آکھڑا ہو۔ یہ بات کہ ایک آدمی بغیر کسی اناوٹ کے اپنی واقعی صورت میں سامنے آگیا ۔ نمود حقیقت کی ایک خاص دلکشی رکھتی ہے۔ اور اس لیے دنیا کی نگاہوں کو بے اختیار اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ جو خاص خاص ادیب ایسا کرسکے۔ ان کی ''میں'' خود ان کےلیے کتنی ہی بڑی اور دوسروں کے لیے کتنی ہی چھوٹی واقع ہوئی ہو، لیکن دنیا اس کی دلپذیری سے انکار نہ کرسکی۔ دنیا کو ان کی انانیت کی مقدار ناپنے کی مہلت ہی نہیں ملی ، وہ اس کی بے تکلفانہ واقعیت دیکھ کر بے خود ہوگئی۔
ایک آدمی جب اپنی تصویر اُتروانی چاہتا ہے، تو خود اسے اس کا شعور ہو یا نہ ہو، لیکن اس خواہش کی تہ میں اس کی انانیت کی ایک دھیمی آواز ضرور بولنے لگتی ہے۔ تصویر اُتروانے کی مختلف حالتیں ہوتی ہیں۔ ایک حالت وہ ہے جسیے مصورانہ وضع(Pose)سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی تصویر اُتروانے کے لیے ایک خاص طرح کا انداز بہ تکلف اختیار کر لینا ۔ ایک ماہر فن مصور جانتا ہے کہ کس چہرے اور جسم کی مصورانہ وضع کیسی ہونی چاہیے؟ جو جب تک نشت ووضع کی نوک پلک درست نہیں کرلے گا، تصویر نہیں اتارے گا۔ سو میں ننانوے آدمیوں کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ نشست اور ڈھنگ سجا کے تصویر اُتروائیں ۔ لیکن فرض کرو ایک آدمی بغیر کسی تیاری اور وضعی انداز کے آلہ انعکاس کے سامنے آگیا اور اسی عالم میں اس کی تصویر اُتر آئی، تو ایسی تصویر کس نگاہ سے دیکھی جائے گی؟ ایسی تصویر محض اس لیے کہ بے ساختگی اور واقعیت کی ٹھیک ٹھیک تعبیر پیش کرتی ہے یقینا ایک خاص قدر و قیمت پید اکر لے گی ، اور جس صاحب نظر کے سامنے جائے گی اس کی توجہ اپنی طرف
مصور تصویر کھینچنے کے لیے موقلم اُٹھائے، مگر اسے یقین ہو کہ میں کتنی ہی مصورانہ قوت کا م میں لاؤں ، میری نگاہ کے سوا اور کوئی نگاہ اس مرقع کی دلآویزی نہیں دیکھ سکے گی:
(۳۱۳)
آئینہ نقشِ بند طلسمِ خیال نیست
تصویر خود بلوحِ دگر می کشیم ما۱۰؎
اس مشکل سے صڑف خال خال مصنف ہی عہدہ برآ ہوسکتے ہیں اور ہوئے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی ''انانیت'' کو بغیر کسی نمائشی وضع میں سجائے ، دوسروں کے سامنے لے آنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ دنیا کے سامنے ان کی ''انانیت''آئی مگر اس طرح آئی، جیسے ایک بے تکلف آدمی بغیر سج دھج بنائے سامنے آکھڑا ہو۔ یہ بات کہ ایک آدمی بغیر کسی اناوٹ کے اپنی واقعی صورت میں سامنے آگیا ۔ نمود حقیقت کی ایک خاص دلکشی رکھتی ہے۔ اور اس لیے دنیا کی نگاہوں کو بے اختیار اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ جو خاص خاص ادیب ایسا کرسکے۔ ان کی ''میں'' خود ان کےلیے کتنی ہی بڑی اور دوسروں کے لیے کتنی ہی چھوٹی واقع ہوئی ہو، لیکن دنیا اس کی دلپذیری سے انکار نہ کرسکی۔ دنیا کو ان کی انانیت کی مقدار ناپنے کی مہلت ہی نہیں ملی ، وہ اس کی بے تکلفانہ واقعیت دیکھ کر بے خود ہوگئی۔
ایک آدمی جب اپنی تصویر اُتروانی چاہتا ہے، تو خود اسے اس کا شعور ہو یا نہ ہو، لیکن اس خواہش کی تہ میں اس کی انانیت کی ایک دھیمی آواز ضرور بولنے لگتی ہے۔ تصویر اُتروانے کی مختلف حالتیں ہوتی ہیں۔ ایک حالت وہ ہے جسیے مصورانہ وضع(Pose)سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی تصویر اُتروانے کے لیے ایک خاص طرح کا انداز بہ تکلف اختیار کر لینا ۔ ایک ماہر فن مصور جانتا ہے کہ کس چہرے اور جسم کی مصورانہ وضع کیسی ہونی چاہیے؟ جو جب تک نشت ووضع کی نوک پلک درست نہیں کرلے گا، تصویر نہیں اتارے گا۔ سو میں ننانوے آدمیوں کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ نشست اور ڈھنگ سجا کے تصویر اُتروائیں ۔ لیکن فرض کرو ایک آدمی بغیر کسی تیاری اور وضعی انداز کے آلہ انعکاس کے سامنے آگیا اور اسی عالم میں اس کی تصویر اُتر آئی، تو ایسی تصویر کس نگاہ سے دیکھی جائے گی؟ ایسی تصویر محض اس لیے کہ بے ساختگی اور واقعیت کی ٹھیک ٹھیک تعبیر پیش کرتی ہے یقینا ایک خاص قدر و قیمت پید اکر لے گی ، اور جس صاحب نظر کے سامنے جائے گی اس کی توجہ اپنی طرف