ذیشان حیدر
محفلین
صفحہ نمبر191
کھینچ لے گی۔ وہ یہ نہیں دیکھے گا کہ جس کی تصویر ہے ، وہ خود کیسا ہے؟ وہ اس میںمحو ہو جائے گا کہ خود تصویر کتنی بے ساختہ ہے!
بعینہ یہی مثال اس صورت حال کی بھی سمجھ لیجئے۔ جو مصنف اپنی انانیت کی بے ساختہ تصویر کھینچ دے سکتے ہیں وہ اس معاملہ کی ساری مشکوں پر غالب آجاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تصویر خود اپنے قلم سے کھینچی لیکن یہ بات اس کی دلآویزی میں کچھ مخل نہ ہوسکی۔ کیونکہ تصویر بے تکلف اور بے ساختہ کھینچی۔ وہ لوگوں کو باعظمت دکھائی دے یا نہ دےلیکن اسکی بے ساختگی کی گیرائی سب کی نگاہوں کو بٹھائے گی۔ ایسے ہی مصنف ہیں جو اپنی انانیت کو لافانی ولپذیری کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔
لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ انسان کی تمام معنومی محسوسات کی طرح اس کی انفرادیت کی نمود بھی مختلف حالتوں میں مختلف طرح کی نوعیتیں رکھی ہے۔ کبھی وہ سوتی رہتی ہے ، کبھی جاگ اُٹھتی ہے، کبھی اُٹھ کر بیٹھ جاتی ہے ، اور کبھی زور شور سے اُچھلنے لگتی ہے۔ انسان کی ساری قوتوں کی طرح وہ بھی نشو و نما کی محتاج ہوئی۔ جس طرح ہر انسان کا ذہن و ادراک یکساں درجہ کا نہیں ہوتا اسی طرح انفرادیت کا جوش بھی ہر دیگ میں ایک ہی طرح نہیں ابلتا۔ مدارج کا یہی فرق ہے جو ہم تمام ادیبوں ، شاعروں ، مصوروں اور موسیقی نوازوں میں پاتے ہیں۔ اکثروں کی انفرادیت بولتی ہے مگر دھیمے سروں میں بولتی ہے۔ بعضوں کی انفرادیت اتنی پر جوش ہوتی ہے کہ جب کبھی بولے گی، سارا گردوپیش گونج اُٹھے گا۔
(۳۱۴)
یک بار نالہ کردہ ام از درد اشتیاق
از شش جہت ہنوز صدامی تواں شنید۱۱؎
(۳۱۵)
وماالدھر الامبن رولۃ قصاثدہی
افاقلت شعرا اصبع الذھر منشداً۱۲؎
ایسے افراد اپنی ''میں'' کا سر جوش کسی طرح نہیںدباسکتے۔ ان کی خاموشی چیخنے والی اوران کا سکون بھی تڑپنے والا ہوتا ہے۔ ان کی انفرادیت دبانے سے اور زیادہ اچھلنے
کھینچ لے گی۔ وہ یہ نہیں دیکھے گا کہ جس کی تصویر ہے ، وہ خود کیسا ہے؟ وہ اس میںمحو ہو جائے گا کہ خود تصویر کتنی بے ساختہ ہے!
بعینہ یہی مثال اس صورت حال کی بھی سمجھ لیجئے۔ جو مصنف اپنی انانیت کی بے ساختہ تصویر کھینچ دے سکتے ہیں وہ اس معاملہ کی ساری مشکوں پر غالب آجاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تصویر خود اپنے قلم سے کھینچی لیکن یہ بات اس کی دلآویزی میں کچھ مخل نہ ہوسکی۔ کیونکہ تصویر بے تکلف اور بے ساختہ کھینچی۔ وہ لوگوں کو باعظمت دکھائی دے یا نہ دےلیکن اسکی بے ساختگی کی گیرائی سب کی نگاہوں کو بٹھائے گی۔ ایسے ہی مصنف ہیں جو اپنی انانیت کو لافانی ولپذیری کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔
لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ انسان کی تمام معنومی محسوسات کی طرح اس کی انفرادیت کی نمود بھی مختلف حالتوں میں مختلف طرح کی نوعیتیں رکھی ہے۔ کبھی وہ سوتی رہتی ہے ، کبھی جاگ اُٹھتی ہے، کبھی اُٹھ کر بیٹھ جاتی ہے ، اور کبھی زور شور سے اُچھلنے لگتی ہے۔ انسان کی ساری قوتوں کی طرح وہ بھی نشو و نما کی محتاج ہوئی۔ جس طرح ہر انسان کا ذہن و ادراک یکساں درجہ کا نہیں ہوتا اسی طرح انفرادیت کا جوش بھی ہر دیگ میں ایک ہی طرح نہیں ابلتا۔ مدارج کا یہی فرق ہے جو ہم تمام ادیبوں ، شاعروں ، مصوروں اور موسیقی نوازوں میں پاتے ہیں۔ اکثروں کی انفرادیت بولتی ہے مگر دھیمے سروں میں بولتی ہے۔ بعضوں کی انفرادیت اتنی پر جوش ہوتی ہے کہ جب کبھی بولے گی، سارا گردوپیش گونج اُٹھے گا۔
(۳۱۴)
یک بار نالہ کردہ ام از درد اشتیاق
از شش جہت ہنوز صدامی تواں شنید۱۱؎
(۳۱۵)
وماالدھر الامبن رولۃ قصاثدہی
افاقلت شعرا اصبع الذھر منشداً۱۲؎
ایسے افراد اپنی ''میں'' کا سر جوش کسی طرح نہیںدباسکتے۔ ان کی خاموشی چیخنے والی اوران کا سکون بھی تڑپنے والا ہوتا ہے۔ ان کی انفرادیت دبانے سے اور زیادہ اچھلنے