ذیشان حیدر
محفلین
صفحہ نمبر192
لگے گی۔ ایسے افراد جب کبھی ''میں'' بولتے ہیں ، تو اس میں قصد، بناوٹ اور نمائش کو کوئی دخل نہیںہوتا۔ وہ سرتاسر حقیقتِ حال کی ایک بے اختیارانہ چیخ ہوتی ہے۔ فیضی کی ایک ایسی ہی چیخ تھی جو اس وقت تک ہمارے سامعہ سے ٹکرارہی ہے:
(۳۱۶)
می کشد شعلہ سرے از دل صد پارئہ ما
جوش آتش بود امروز بہ فؤرائہ ما۱۳؎
لیکن ہر قانون کی طرح یہاں بھی مستثنیات ہیں۔ ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ کبھی کبھی ایسی شخصیتیں بھی دنیا کے مسرح (اسٹیج)پر نمودار ہو جاتی ہیں جن کی انانیت کی مقدار اضافی نہیں ہوتی، بلکہ مطلق نوعیت رکھتی ہے؛ یعنی خود انہیں ان کی انانیت جتنی بڑی دکھائی دیتی ہے، اتنی ہی بڑی دوسرے بھی دیکھنے لگتے ہیں۔ ان کی انانیت بھی پرچھائیں جب کبھی پڑے گی، تو خواہ اندر کا آئینہ ہو خواہ باہر کا، اس کے بعد ابعادِ ثلاثہ(Dimensions)ہمیشہ یکساں طور پر نمودار ہوںگے!
ایسے اخص الخواص افراد کو عام معیار نظر سے الگ رکھنا پڑے گا۔ ایسے لوگ فکر و نظر کے عام ترازؤوں میں نہیں تولے جاسکتے۔ ادب ت تصنیف کے عام قوانین انہیں اپنے کُلیوں سے نہیں پکڑ سکتے۔ زمانے کو ان کایہ حق تسلیم کر لینا پڑتا ہے کہ وہ جتنی مرتبہ بھی چاہیں''میں'' بولتے رہیں۔ ان کی ہر ''میں'' ان کی ہر ''وہ'' اور''تم'' سے کہیں زیادہ دلپذیر ہوتی ہے!
انانیتی ادبیات کی کوئی خاص قسم لے لیجئے۔ مثلاً خود نوشتہ سوانح و اردات اور پھر مثال کے لیے بغیر کاوش کے چند شخصیتیں چن لیجئے۔ مثلاً سینٹ آگسٹائن۱۴؎(St. Audustine)روسو(Rousseau)۱۵؎، اسٹرنڈبرگ۱۶؎(Strind Berg)ٹالسٹائی۱۷؎، اناطول فرانس،۱۸؎، اندرے ژید۱۹؎(Andregide)ان کے خود نوشتہ سوانح چھ مختلف نوعیتوں کی چھ مختلف تصویریں ہیں لیکن سب نے یکساں طور پر ادبیات عالم میںدائمی جگہ حاصل کر لی۔ کیونکہ تصویریں بے ساختہ اور واقعی ہیں ۔ مشرقی ادبیات میں مثلاً غزالی، ۲۰؎ ، ابن خلدون۲۱؎، بابر۲۲؎، جہانگیر۲۳؎ اور ملّا عبدالقادر۲۴؎بدایونی کے خود نوشتہ حالات سامنے لائیے۔ ہم کتنی ہی مخالفانہ نگاہوں سے انہیں پڑھیں، لیکن ان کی دلآویزی نے مطالبہ کے انکار نہیں کرسکتے۔ غزالی نے اپنے فکری انفعالات کی سرگزشت سنائی۔
لگے گی۔ ایسے افراد جب کبھی ''میں'' بولتے ہیں ، تو اس میں قصد، بناوٹ اور نمائش کو کوئی دخل نہیںہوتا۔ وہ سرتاسر حقیقتِ حال کی ایک بے اختیارانہ چیخ ہوتی ہے۔ فیضی کی ایک ایسی ہی چیخ تھی جو اس وقت تک ہمارے سامعہ سے ٹکرارہی ہے:
(۳۱۶)
می کشد شعلہ سرے از دل صد پارئہ ما
جوش آتش بود امروز بہ فؤرائہ ما۱۳؎
لیکن ہر قانون کی طرح یہاں بھی مستثنیات ہیں۔ ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ کبھی کبھی ایسی شخصیتیں بھی دنیا کے مسرح (اسٹیج)پر نمودار ہو جاتی ہیں جن کی انانیت کی مقدار اضافی نہیں ہوتی، بلکہ مطلق نوعیت رکھتی ہے؛ یعنی خود انہیں ان کی انانیت جتنی بڑی دکھائی دیتی ہے، اتنی ہی بڑی دوسرے بھی دیکھنے لگتے ہیں۔ ان کی انانیت بھی پرچھائیں جب کبھی پڑے گی، تو خواہ اندر کا آئینہ ہو خواہ باہر کا، اس کے بعد ابعادِ ثلاثہ(Dimensions)ہمیشہ یکساں طور پر نمودار ہوںگے!
ایسے اخص الخواص افراد کو عام معیار نظر سے الگ رکھنا پڑے گا۔ ایسے لوگ فکر و نظر کے عام ترازؤوں میں نہیں تولے جاسکتے۔ ادب ت تصنیف کے عام قوانین انہیں اپنے کُلیوں سے نہیں پکڑ سکتے۔ زمانے کو ان کایہ حق تسلیم کر لینا پڑتا ہے کہ وہ جتنی مرتبہ بھی چاہیں''میں'' بولتے رہیں۔ ان کی ہر ''میں'' ان کی ہر ''وہ'' اور''تم'' سے کہیں زیادہ دلپذیر ہوتی ہے!
انانیتی ادبیات کی کوئی خاص قسم لے لیجئے۔ مثلاً خود نوشتہ سوانح و اردات اور پھر مثال کے لیے بغیر کاوش کے چند شخصیتیں چن لیجئے۔ مثلاً سینٹ آگسٹائن۱۴؎(St. Audustine)روسو(Rousseau)۱۵؎، اسٹرنڈبرگ۱۶؎(Strind Berg)ٹالسٹائی۱۷؎، اناطول فرانس،۱۸؎، اندرے ژید۱۹؎(Andregide)ان کے خود نوشتہ سوانح چھ مختلف نوعیتوں کی چھ مختلف تصویریں ہیں لیکن سب نے یکساں طور پر ادبیات عالم میںدائمی جگہ حاصل کر لی۔ کیونکہ تصویریں بے ساختہ اور واقعی ہیں ۔ مشرقی ادبیات میں مثلاً غزالی، ۲۰؎ ، ابن خلدون۲۱؎، بابر۲۲؎، جہانگیر۲۳؎ اور ملّا عبدالقادر۲۴؎بدایونی کے خود نوشتہ حالات سامنے لائیے۔ ہم کتنی ہی مخالفانہ نگاہوں سے انہیں پڑھیں، لیکن ان کی دلآویزی نے مطالبہ کے انکار نہیں کرسکتے۔ غزالی نے اپنے فکری انفعالات کی سرگزشت سنائی۔