ذیشان حیدر
محفلین
صفحہ نمبر193
ابن ِ خلدون نے اپنے تعلیمی اور سیاسی علائق کی داستان سرائی کی۔ بابر نے جنگ اور امن کے واقعات و واردات قلم بند کیے۔ جہانگیر نے تختِ شہنشاہی پر بیٹھ کر وقائع نگاری کا قلم دان طلب کیا۔ ان کی انانیتیں بے پردہ بول رہی ہیں۔ ہم انہیں خود ان کی نگاہوںسے نہیںدیکھ سکتے۔ تاہم دیکھتے ہیں اور انکی لافانی دلآویزی سے انکار نہیں کرسکتے کیونکہ کسی بغیر بناوٹ کے سامنے آگئی ہیں۔
بدایوانی کا معاملہ اوروں سے الگ ہے! طبقہئ عوام کا ایک فرد جس نے وقت کی درسیاتی تعلیم حاصل کر کے علماء کے حلقے میں اپنی جگہ بنائی اور دربارشاہی تک رسائی حاصل کر لی۔ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں میں اگر خصوصیت کے ساتھ کوئی چیز اُبھرتی ہے ، تو وہ اس کی بے لچک تنگ نظری، بے روک تعصب اور بے میل راسخ الاعتقادی ہے۔ ہمیں اس کی انانیت نہ صڑف بہت چھوٹی دکھائی دیتی ہے۔ بلکہ قدم قدم پر انکار و تبری کی دعوت دیتی ہے۔ تاہم یہ کیا بات ہے کہ اس پر بھی ہم اپنی نگاہوں کو اس کی طرح اُٹھنے سے روک نہیں سکتے؟ ہم اسے پسند نہیں کرتے، پھر بھی اسے پڑھتے ہیں اور جی لگا کر پڑھتے ہیں ۔ غور کیجئے یہ وہ بات ہوئی جوابھی تھوڑی دیرہوئی ہم سونچ رہے تھے۔ جس شخص کی یہ تصویر ہے وہ خود خوبصورت نہیں لیکن تصویر بہ حیثیت ایک تصویر کے خوبصورت ہے۔ اس لیے ہماری نگاہوں کو بے اختیار اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے۔ یہ صاحب تصویر نہیں تھا جس نے ہماری نگاہوں کو کھینچا ؛ یہ تصویر کی بے ساختگی تھی جس کے بلاوے کی کشش سے ہم اپنے آپ کو نہ بچاسکے!
ٹالشائی غالباً ان خاص شخصوں میں سے تھا جن کی انانیت کی مقدار اضافی ہونے کی جگہ ایک مطلق نوعیت رکھتی تھی۔ اس کی انانیت خود اسے جنتی بڑی دکھائی دی، دنیا نے بھی اسے اتنا ہی بڑا دیکھا۔ پچھلی صدی کے آخر ی اور اس صدی کے ابتدائی دور میں شاید ہی وقت کا کوئی مصنف اس خود اعتمادی کے ساتھ ''میں'' بول سکا، جس طرح یہ عجیب و غریب رُوسی بولتارہا۔ اس کے خود نوشتہ حالات، اس کے شخصی واردات و تاثرات اس کے مختلف وقتوں کے مکالمے اور روزنامچے ، اس کے ادبی و فنی مباحث ، سب میں اس کی انانیت بغیر کسی نقاب کے دنیا کے سامنے آئی اور دنیا اسے عالمگیر نوشتوں کے ساتھ جمع کرتی رہی۔ اس کے خود نوشتہ سوانح جو ایک بے رنگ سادگی کے ساتھ لکھے گئے ہیں اس کی ''واراینڈ پیس'' اور
ابن ِ خلدون نے اپنے تعلیمی اور سیاسی علائق کی داستان سرائی کی۔ بابر نے جنگ اور امن کے واقعات و واردات قلم بند کیے۔ جہانگیر نے تختِ شہنشاہی پر بیٹھ کر وقائع نگاری کا قلم دان طلب کیا۔ ان کی انانیتیں بے پردہ بول رہی ہیں۔ ہم انہیں خود ان کی نگاہوںسے نہیںدیکھ سکتے۔ تاہم دیکھتے ہیں اور انکی لافانی دلآویزی سے انکار نہیں کرسکتے کیونکہ کسی بغیر بناوٹ کے سامنے آگئی ہیں۔
بدایوانی کا معاملہ اوروں سے الگ ہے! طبقہئ عوام کا ایک فرد جس نے وقت کی درسیاتی تعلیم حاصل کر کے علماء کے حلقے میں اپنی جگہ بنائی اور دربارشاہی تک رسائی حاصل کر لی۔ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں میں اگر خصوصیت کے ساتھ کوئی چیز اُبھرتی ہے ، تو وہ اس کی بے لچک تنگ نظری، بے روک تعصب اور بے میل راسخ الاعتقادی ہے۔ ہمیں اس کی انانیت نہ صڑف بہت چھوٹی دکھائی دیتی ہے۔ بلکہ قدم قدم پر انکار و تبری کی دعوت دیتی ہے۔ تاہم یہ کیا بات ہے کہ اس پر بھی ہم اپنی نگاہوں کو اس کی طرح اُٹھنے سے روک نہیں سکتے؟ ہم اسے پسند نہیں کرتے، پھر بھی اسے پڑھتے ہیں اور جی لگا کر پڑھتے ہیں ۔ غور کیجئے یہ وہ بات ہوئی جوابھی تھوڑی دیرہوئی ہم سونچ رہے تھے۔ جس شخص کی یہ تصویر ہے وہ خود خوبصورت نہیں لیکن تصویر بہ حیثیت ایک تصویر کے خوبصورت ہے۔ اس لیے ہماری نگاہوں کو بے اختیار اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے۔ یہ صاحب تصویر نہیں تھا جس نے ہماری نگاہوں کو کھینچا ؛ یہ تصویر کی بے ساختگی تھی جس کے بلاوے کی کشش سے ہم اپنے آپ کو نہ بچاسکے!
ٹالشائی غالباً ان خاص شخصوں میں سے تھا جن کی انانیت کی مقدار اضافی ہونے کی جگہ ایک مطلق نوعیت رکھتی تھی۔ اس کی انانیت خود اسے جنتی بڑی دکھائی دی، دنیا نے بھی اسے اتنا ہی بڑا دیکھا۔ پچھلی صدی کے آخر ی اور اس صدی کے ابتدائی دور میں شاید ہی وقت کا کوئی مصنف اس خود اعتمادی کے ساتھ ''میں'' بول سکا، جس طرح یہ عجیب و غریب رُوسی بولتارہا۔ اس کے خود نوشتہ حالات، اس کے شخصی واردات و تاثرات اس کے مختلف وقتوں کے مکالمے اور روزنامچے ، اس کے ادبی و فنی مباحث ، سب میں اس کی انانیت بغیر کسی نقاب کے دنیا کے سامنے آئی اور دنیا اسے عالمگیر نوشتوں کے ساتھ جمع کرتی رہی۔ اس کے خود نوشتہ سوانح جو ایک بے رنگ سادگی کے ساتھ لکھے گئے ہیں اس کی ''واراینڈ پیس'' اور