ذیشان حیدر
محفلین
صفحہ نمبر200
کے لیے دو باتوں کی درستگی ضروری ہوتی ہے۔ پہلی یہ کہ بیج درست ہو
(۳۲۹)
گرجاں بد ہد سنگ سیہ لعل نہ گردو
باطینتِ اصلی چہ کند، بد کہر افتاد!۲۴؎
(۳۳۰)
جوہر طینتِ آدم زخمیر دگرست
تو توقع زگلِ کوزہ گراں می واری!۲۵؎
چنانچہ یہاں بھی سب سے پہلے انہی دو باتوں کی فکر کی گئی۔ بیج کے لیے چیتہ خاں کو کہہ کر پونا لکھوایا گیا کہ وہاں کے بعض باغوں کے ذخیرے بیجوں کی خوبی و صلاحیت کے لیے مشہور ہیں، لیکن زمین کی درستگی کا معاملہ اتنا آسان نہ تھا ۔ احاطہ کی پوری زمین دراصل قلعہ کی پرانی عمارتوں کا ملبہ ہے۔ ذرا کھودئیے اور پتھر کے بڑے بڑے ٹکڑے اور چونے اور ریت کا بُرادہ ہر جگہ نکلنے لگتا ہے۔ درمیانی حصہ تو گویا گنبدوں اور مقبروں کا مدفن ہے نہیں معلوم کن کن فرما نرواؤں اور کیسے کیسے پری چہروں کی ہڈیوں سے اس خرابے کی مٹی گوندھی گئی ہے اور زبان حال سے کہہ رہی ہے۔
(۳۳۱)
قدح بشرط ادب گیر، زاں کہ ترکبپش
زکاسئہ سر جمشید ، بہمن ست و قباد۲۶؎
نا چار تختوں کی داغ بیل ڈال کر دو دو تین، ۲۷؎ فٹ زمین کھودی گئی اور باہر سے مٹی اور کھاد منگوا کر انہیں بھرا گیا ۔ کئی ہفتے اس میں نکل گئے۔ جواہر لال صبح و شام پھاوڑ اور کدال ہاتھ میں لیے کوہ کندن اورکاہ برآوردن میں لگے رہتے تھے:
(۳۳۲)
آغشتہ ایم ہر سرخارے بہ خون دل
قانونِ باغبانی صحرا نوشتہ ایم ! ۲۸
اس کے بعد آبشاشی کا مرحلہ پیش آیا اور اس پر غور کیاگیا کہ کیمسٹری کے حقائق سے فن زراعت کے اعمال میں کہاں تک مدد لی جاسکتی ہے ۔ اس موضع پر ارباب فن نے بڑی بڑی نکتہ آفرینیاں کیں، ہمارے قافلہ میں ایک صاحب بنگال کے لیں۔ جن کی سائنٹفک معلومات پر موقعہ ہر ضرورت ہو یا نہ ہو اپنی جلوہ طرازیوں کا فیاضافہ اسراف کرتی
کے لیے دو باتوں کی درستگی ضروری ہوتی ہے۔ پہلی یہ کہ بیج درست ہو
(۳۲۹)
گرجاں بد ہد سنگ سیہ لعل نہ گردو
باطینتِ اصلی چہ کند، بد کہر افتاد!۲۴؎
(۳۳۰)
جوہر طینتِ آدم زخمیر دگرست
تو توقع زگلِ کوزہ گراں می واری!۲۵؎
چنانچہ یہاں بھی سب سے پہلے انہی دو باتوں کی فکر کی گئی۔ بیج کے لیے چیتہ خاں کو کہہ کر پونا لکھوایا گیا کہ وہاں کے بعض باغوں کے ذخیرے بیجوں کی خوبی و صلاحیت کے لیے مشہور ہیں، لیکن زمین کی درستگی کا معاملہ اتنا آسان نہ تھا ۔ احاطہ کی پوری زمین دراصل قلعہ کی پرانی عمارتوں کا ملبہ ہے۔ ذرا کھودئیے اور پتھر کے بڑے بڑے ٹکڑے اور چونے اور ریت کا بُرادہ ہر جگہ نکلنے لگتا ہے۔ درمیانی حصہ تو گویا گنبدوں اور مقبروں کا مدفن ہے نہیں معلوم کن کن فرما نرواؤں اور کیسے کیسے پری چہروں کی ہڈیوں سے اس خرابے کی مٹی گوندھی گئی ہے اور زبان حال سے کہہ رہی ہے۔
(۳۳۱)
قدح بشرط ادب گیر، زاں کہ ترکبپش
زکاسئہ سر جمشید ، بہمن ست و قباد۲۶؎
نا چار تختوں کی داغ بیل ڈال کر دو دو تین، ۲۷؎ فٹ زمین کھودی گئی اور باہر سے مٹی اور کھاد منگوا کر انہیں بھرا گیا ۔ کئی ہفتے اس میں نکل گئے۔ جواہر لال صبح و شام پھاوڑ اور کدال ہاتھ میں لیے کوہ کندن اورکاہ برآوردن میں لگے رہتے تھے:
(۳۳۲)
آغشتہ ایم ہر سرخارے بہ خون دل
قانونِ باغبانی صحرا نوشتہ ایم ! ۲۸
اس کے بعد آبشاشی کا مرحلہ پیش آیا اور اس پر غور کیاگیا کہ کیمسٹری کے حقائق سے فن زراعت کے اعمال میں کہاں تک مدد لی جاسکتی ہے ۔ اس موضع پر ارباب فن نے بڑی بڑی نکتہ آفرینیاں کیں، ہمارے قافلہ میں ایک صاحب بنگال کے لیں۔ جن کی سائنٹفک معلومات پر موقعہ ہر ضرورت ہو یا نہ ہو اپنی جلوہ طرازیوں کا فیاضافہ اسراف کرتی