جاسم محمد
محفلین
غدار پیدا کرنے کی روش
10/05/2019 بابر ستار
آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے پچھلی پریس بریفنگ میں ایک بات کی تصدیق کر دی، انہوں نے اس تاریخی جملے کی سچائی کو عیاں کر دیا کہ “چیزیں جتنی زیادہ تبدیل ہوتی ہیں اتنی ہی زیادہ ویسی ہی رہتی ہیں۔” ہمارے علاقوں میں دہشت گرد پیدا کرنا ایک بہت پرانا معمول ہے۔ لیکن کیا اس سے پاکستان کو خاطر خواہ فائدہ ہوا؟ اس سے ہمارے عوام میں فالٹ لائنز کا خاتمہ ہوا یا یہ مزید گہری ہوتی گئیں۔ کیا اس نے پاکستانی شہریوں کو زیادہ متحد قوم بنا دیا ہے یا نہیں؟ کیا لوگوں کو غدار قرار دینا اختلافی آوازوں کو دبانے کا سب سے موثر ذریعہ ہے، تنقید کو روک سکتا ہے اوررائے عامہ کو کنٹرول کر سکتا ہے؟
طاقت اور اختیار کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جس کے پاس یہ چیز ہوتی ہے وہ پوری کی پوری طاقت حاصل کر لینا چاہتے ہیں۔ جس کے پاس جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ اتنا ہی اس کا غلط استعمال کرتا ہے اور جو اسے روکنے کی کوشش کرے اس پر کڑھنے لگتا ہے۔ طاقت کے استعمال میں توازن کے لیے تمام ادارے اختیار کو تقسیم کر لیتے ہیں اور کچھ چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے اختیار کے غلط استعمال کو روک لیتے ہیں۔ ہمارا آئین بھی اختیارات کی تقسیم کی ایک دستاویز ہے جو اظہار رائے اور معلومات کی مکمل آزادی شہریوں کو مہیا کرتا ہے تا کہ اختیارات کے استعمال کے معاملے میں تنقید اور جانچ پڑتال ممکن ہو سکے۔ لیکن زمینی حقیقتوں کے کتابی اصولوں پر غلبہ کی وجہ سے ہمارے ہاں آئینی چیک اینڈ بیلنس کے تمام طریقے بے کار اور غیر فعال ہیں۔
سول ملٹری تعلقات میں تلخی کی وجہ سے یہ فالٹ لائنز اس قدر گہری ہو چکی ہیں کہ معاملہ جمہوریت بمقابلہ ملوکیت، فیڈرل ازم بمقابلہ سنٹرل کنٹرول اور ریڈیکل ازم بمقابلہ نیشنل ازم جیسی صورت حال اختیار کر چکا ہے۔ ہم نے ہر دس برس کے کے بعد جمہوریت میں فوج کی مداخلت کا سامنا کیا ہے۔ آج ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ فوج کا پس پردہ تمام ریاستی اداروں اور ریاست پر کنٹرول ہے۔ اگر ملٹری لیڈرشپ کی خواہش تھی کہ وہ اختیار اور ذمہ داری میں سے حصہ حاصل کرے، خود اقتدار پر قابض ہو جائے اور ذمہ داریاں سیاسی لیڈر شپ پر ڈال دے تو یہ منصوبہ بھر پور طریقے سے پایہ تکمیل پہنچ چکا ہے۔
ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ڈی فیکٹو سسٹم قابل استعمال ہے بھی یا نہیں۔ آئی ایس پی آر کی یہ بریفنگ اس ماڈل کے حمایتیوں اور معماروں کے بارے میں ایک اہم اور معلوماتی پروگرام سے کم نہیں تھی۔ پی ٹی ایم کو غدار قرار دینے کا مقصد اس پلان کے راستے میں آنے والی اس رکاوٹ کا خاتمہ کرنا تھا۔ سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کو ڈی فیکٹو سسٹم کو قبول کرنے پر مجبور کر لینے کے بعد یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پی ٹی ایم کی صورت میں ایک جماعت سب سے طاقتور ادارے کو آنکھیں دکھائے۔
پی ٹی ایم بادشاہ کے تاج میں ایک کانٹا بن گئی ہے۔ اور بادشاہ نا صرف ناراض ہے بلکہ غصے میں بھی ہے۔ وہ غدار ہوں یا نہ ہوں، اس وقت پی ٹی ایم ملک میں واحد ایسی جماعت ہے جو اختلاف کا راستہ اپنائے ہوئے ہے۔ یہ جماعت نیشنل سکیورٹی پالیسی پر سوال اٹھا رہی ہے اور قومی بیانیے میں غلطیوں کی نشاندہی کر کے طاقتوں کو سب سے زیادہ تکلیف دے رہی ہے۔ آج کا سب سے مضبوط بیانیہ یہ ہے کہ تمام سیاسی قیادت کرپٹ اور نا اہل ہے۔
ڈی فیکٹو سسٹم کے ساتھ کام چلانا ملک کی مجبوری ہے لیکن پی ٹی ایم کے ہوتے ہوئے اس بیانیہ کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے کیونکہ پی ٹی ایم جواب میں اس طاقت کے اپنے کاموں پر سوال اٹھا دیتی ہے۔ غدار قرار دینے کے معاملے میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ طریقہ اب بہت پرانا ہو چکا ہے۔ یہ اب نہ تو فائدہ مند ہے اور نہ قابل اعتماد۔ اس کا قابل عمل نہ ہونا ایک تاریخی حقیقت ہے۔ یہ طریقہ بہت سے قوم پرست رہنماؤں کے خلاف کامیابی سے استعمال کیا جا چکا ہے جو اپنے لوگوں میں بہت مقبول تھے۔ لیکن جب یہ حربہ استعمال ہوتا ہے تو یہ نفرت مٹانے کی بجائے آگ لگانے کا کام کرتا ہے۔
اگر آپ اپنے دشمن کو چوہا کہیں گے تو آپ کی طرف سے بے توقیری دشمن کو اس کے حامیوں کی نظر میں کمزور نہیں کرتی۔ اس سے اس کی سپورٹ بیس زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ پنجاب کی طرف سے پی ٹی ایم کے ساتھ نفرت انگیز رویہ پی ٹی آئی کو پشتون کمیونٹی کی نظر میں زیادہ قابل اعتماد بنائے گا۔ چھوٹی چھوٹی بات پر غداری کے فتوے پھینکنا ڈی فیکٹو سسٹم کے ایک اہم مسئلے پر روشنی ڈالتا ہے۔
یہ نظام بلیک اینڈ وائٹ دنیا کے لیے لایا جاتا ہے۔ آپ یا اس کے ساتھ رہ سکتے ہیں یا مخالفت کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ساتھی ہیں تو محب وطن ہیں۔ اگر اس کے مخالف ہیں تو غدار ہیں اور دشمن کے ساتھی ہیں۔ ڈی فیکٹو ماڈل میں پریشر کو ریلیز کرنے کا کوئی والو نہیں ہوتا۔ نہ تنازعات کے حل کا کوئی میکنزم ہوتا ہے اور نہ مفادات کے ٹکراؤ کو صلح صفائی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان جیسے متنوع ممالک ایسے نظام کے ساتھ گزارا نہیں کر سکتے جن میں مفادات کا ٹکراؤ نہ روکا جا سکتا ہو اور صلح صفائی کی آپشن موجود نہ ہو۔
ڈی فیکٹو سسٹم اداروں کی آزادی کی صورت میں قائم نہیں رہ سکتا۔ کوئی بھی شہری ریاست سے ناراضی کی صورت میں آئینی ضابطوں کے مطابق عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔ لیکن ایک ایسا سسٹم جس کا مقولہ ہی جنگ اور محبت میں سب جائز والا بیان ہو وہاں کسی قسم کی غیر جانبداری کی گنجائش موجود نہیں رہ سکتی۔ لاپتہ افراد کے کیسز عدالتوں میں آگے نہیں بڑھ سکتے کیونکہ ان کو اجازت ہی نہیں دی جاتی۔ جسٹس شوکت صدیقی جن کے خلاف پہلے سے ہی مس کنڈکٹ کے کئی ریفرنسز موجود ہیں انہوں نے جیسے ہی ڈی فیکٹو سسٹم پر عدالتی نظام میں مداخلت کا الزام لگایا، انہیں سائیڈ لائن کر دیا گیا۔
جسٹس فائز عیسی کے خلاف ایک مہم چلائی گئی اور یہ مہم بار میں موجود کچھ مخصوص لوگوں کے ذریعے اس لیے چلائی گئی کہ جسٹس فائز عیسی نے اس ڈی فیکٹو سسٹم کو فیض آباد دھرنا کیس میں تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ وہ خود مختار آواز رکھنے والے واحد شخص نہیں ہیں جن پر اس طرح حملہ کیا گیا ہو۔ اس سے قبل 2014 میں جسٹس جواد ایس خواجہ کے خلاف ریڈ زون میں رات کے وقت بینرز آویزاں کر دیے گئے تھے اوراس کے ذمہ داروں کا کوئی کبھی تعین نہ کر پایا۔
نام خفیہ رکھنا ایک بہت بڑا اثاثہ ثابت ہوتا ہے۔ لیکن ہر مقصد کو بغیر چہرہ دکھائے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ڈی فیکٹو سسٹم کو ایک ایسی عدلیہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو صاحب اختیار کی مرضی کے مطابق بہترین طریقے سے کام سر انجام دے۔ قانون کی حکمرانی ایک ایسا تصور ہے جو ڈی جورے نظام سے تعلق رکھتا ہے۔ ڈی فیکٹو ماڈل جنگی منشور کے مطابق چلتا ہے۔ جنگیں درست طریقے کی تنکنیکی ضروریات کی پابندی کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ اس میں اہمیت جیت کی ہوتی ہے نہ کہ درست طریقہ اختیار کرنے کی۔ جنگوں میں نقصان بھی ہوتا ہے اور اپنے لوگوں کی جانیں بھی جاتی ہیں۔ ریاست کے فائدہ کے لیے کچھ قیمتی جانیں قربان کرنا پڑتی ہیں۔ جنگی منشور کی اپنی ایک لاجک ہوتی ہے۔ لیکن یہ اسی وقت استعمال کیا جانا چاہیے جب جنگی حالات ہوں نہ کہ امن کے دنوں میں۔ ڈی فیکٹو سسٹم ہر معاملے پر جنگی حالات نافذ کرتا ہے اور جنگی منشور کر مستقل طور پر نافذ کر دیتا ہے۔
اس میں قانون کی حکمرانی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایک فیڈریشن کے اندر فیڈریٹنگ یونٹس اور سینٹر ایک دوسرے کی ترجیحات سے اختلاف کے باوجود اکٹھے چل سکتے ہیں۔ اس سے جوڑوں کے بیچ حرکت کے لیے جگہ پیدا ہوتی ہے۔ یہ اختلاف کے باوجود تعاون کی گنجائش پیدا کرتا ہے۔ اس سے فیڈریٹنگ یونٹس کے بیچ بہترین مقابلہ بازی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ اس سے ایسی پالیسیاں وجود میں آتی ہیں جن کی وجہ سے کوئی خاص پارٹی فاتح نہیں بنتی لیکن کوئی پاگل پن کی حد تک بھی نہیں جا سکتا۔
ایک ٹوٹلٹیرین سسٹم جو متنوع کلچر پر زبردستی تھونپ دیا جائے تو وہاں سب ادارے ایک جیسے نظر آنے لگتے ہیں۔ یہاں اختلاف اور دلچسپیوں کے ملاپ کا چانس بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اس ڈیفیکٹو سسٹم کو یہ معلوم ہے کہ ملٹری قیادت کو براہ راست سامنے لا کر اس کی ہتک کروانا ایک درست اقدام نہیں ہوگا۔ لیکن کیا اسے یہ سمجھ نہیں ہے کہ یہی لاجک تمام دوسرے اداروں کے بارے میں بھی لاگو ہوتی ہے؟ ایک ایسی عدلیہ جسے غیر جانبدار اور منصفانہ نہ سمجھا جا رہا ہو وہ قابل اعتماد عدلیہ نہیں کہلاتی۔
ایک ایسا میڈیا جسے ڈرا دھمکا کرسچ بولنے سے روکے رکھا گیا ہو بہترین اور قابل اعتماد میڈیا نہیں کہلا سکتا۔ ایک ایسا ملک جہاں ڈی جی آئی ایس پی آر کی بات پوری کابینہ کی بات سے زیادہ وزن رکھتی ہو وہاں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ لوگ مزاح کے طور پر وزیر اعظم کو سلیکٹڈ وزیر اعظم قرار دیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے میڈیا کے کردار پر خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر 1971 میں میڈیا آج کے میڈیا کی طرح ذمہ دار اور محب وطن ہوتا تو جنگ کے نتائج مختلف ہوتے۔
اس کے بعد انہوں نے پی ٹی ایم کا میڈیا ٹرائل شروع کیا۔ میڈیا نمائندوں کو ہدایت جاری کی کہ وہ پی ٹی ایم کو میڈیا پر جگہ نہ دیں اور نہ انہیں دفاع کا حق دیا جائے۔ کیا ہمارے ڈی فیکٹو سسٹم نے ففتھ جنریشن وار تھیوریز کی حد سے زیادہ خوراک لے لی ہے؟ میڈیا کو ایک تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا زیادہ بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ زیادہ بڑا مسئلہ وہ امید ہے جو ڈیفیکٹو سسٹم نے اس تجربہ سے جوڑ رکھی ہے۔ کیا میڈیا کو ہتھیار سے لیس کر کے اور ڈی فیکٹو سسٹم کی خواہشات کے مطابق رپورٹنگ کا پابند بنا کر ہماری حقیقت بدل جائے گی؟
کیا دنیا اچانک پاکستان کو ایک نئے تصور کے ساتھ دیکھے گی اگر ہمارا میڈیا یہ کہنا شروع کر دے کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں؟ کیا اگر پنجابی اینکرز منظور پشتین کو غدار قرار دے دیں تو پشتون سپورٹرز منظور پشتین پر پتھر برسانا شروع کر دیں گے؟ کیا مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کو مودی کا یار ہونے کی وجہ سے ڈِچ کیا تھا؟ کیا انڈین میڈیا کا اینٹی پاکستان پروپیگنڈا کسی بھی پاکستانی کو بھارتی میڈیا کا ہم خیال بنا سکتا ہے؟ قاصد کو مارنے سے جنگون کے نتائج نہیں بدلا کرتے۔ 1971 کے نتائج تب تک ویسے ہی رہیں گے جیسے تب تھے جب تک ہم اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل نہیں کرتے جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔ لیکن بدقسمتی سے ابھی تک اس کے بدلنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
10/05/2019 بابر ستار
آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے پچھلی پریس بریفنگ میں ایک بات کی تصدیق کر دی، انہوں نے اس تاریخی جملے کی سچائی کو عیاں کر دیا کہ “چیزیں جتنی زیادہ تبدیل ہوتی ہیں اتنی ہی زیادہ ویسی ہی رہتی ہیں۔” ہمارے علاقوں میں دہشت گرد پیدا کرنا ایک بہت پرانا معمول ہے۔ لیکن کیا اس سے پاکستان کو خاطر خواہ فائدہ ہوا؟ اس سے ہمارے عوام میں فالٹ لائنز کا خاتمہ ہوا یا یہ مزید گہری ہوتی گئیں۔ کیا اس نے پاکستانی شہریوں کو زیادہ متحد قوم بنا دیا ہے یا نہیں؟ کیا لوگوں کو غدار قرار دینا اختلافی آوازوں کو دبانے کا سب سے موثر ذریعہ ہے، تنقید کو روک سکتا ہے اوررائے عامہ کو کنٹرول کر سکتا ہے؟
طاقت اور اختیار کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جس کے پاس یہ چیز ہوتی ہے وہ پوری کی پوری طاقت حاصل کر لینا چاہتے ہیں۔ جس کے پاس جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ اتنا ہی اس کا غلط استعمال کرتا ہے اور جو اسے روکنے کی کوشش کرے اس پر کڑھنے لگتا ہے۔ طاقت کے استعمال میں توازن کے لیے تمام ادارے اختیار کو تقسیم کر لیتے ہیں اور کچھ چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے اختیار کے غلط استعمال کو روک لیتے ہیں۔ ہمارا آئین بھی اختیارات کی تقسیم کی ایک دستاویز ہے جو اظہار رائے اور معلومات کی مکمل آزادی شہریوں کو مہیا کرتا ہے تا کہ اختیارات کے استعمال کے معاملے میں تنقید اور جانچ پڑتال ممکن ہو سکے۔ لیکن زمینی حقیقتوں کے کتابی اصولوں پر غلبہ کی وجہ سے ہمارے ہاں آئینی چیک اینڈ بیلنس کے تمام طریقے بے کار اور غیر فعال ہیں۔
سول ملٹری تعلقات میں تلخی کی وجہ سے یہ فالٹ لائنز اس قدر گہری ہو چکی ہیں کہ معاملہ جمہوریت بمقابلہ ملوکیت، فیڈرل ازم بمقابلہ سنٹرل کنٹرول اور ریڈیکل ازم بمقابلہ نیشنل ازم جیسی صورت حال اختیار کر چکا ہے۔ ہم نے ہر دس برس کے کے بعد جمہوریت میں فوج کی مداخلت کا سامنا کیا ہے۔ آج ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ فوج کا پس پردہ تمام ریاستی اداروں اور ریاست پر کنٹرول ہے۔ اگر ملٹری لیڈرشپ کی خواہش تھی کہ وہ اختیار اور ذمہ داری میں سے حصہ حاصل کرے، خود اقتدار پر قابض ہو جائے اور ذمہ داریاں سیاسی لیڈر شپ پر ڈال دے تو یہ منصوبہ بھر پور طریقے سے پایہ تکمیل پہنچ چکا ہے۔
ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ڈی فیکٹو سسٹم قابل استعمال ہے بھی یا نہیں۔ آئی ایس پی آر کی یہ بریفنگ اس ماڈل کے حمایتیوں اور معماروں کے بارے میں ایک اہم اور معلوماتی پروگرام سے کم نہیں تھی۔ پی ٹی ایم کو غدار قرار دینے کا مقصد اس پلان کے راستے میں آنے والی اس رکاوٹ کا خاتمہ کرنا تھا۔ سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کو ڈی فیکٹو سسٹم کو قبول کرنے پر مجبور کر لینے کے بعد یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پی ٹی ایم کی صورت میں ایک جماعت سب سے طاقتور ادارے کو آنکھیں دکھائے۔
پی ٹی ایم بادشاہ کے تاج میں ایک کانٹا بن گئی ہے۔ اور بادشاہ نا صرف ناراض ہے بلکہ غصے میں بھی ہے۔ وہ غدار ہوں یا نہ ہوں، اس وقت پی ٹی ایم ملک میں واحد ایسی جماعت ہے جو اختلاف کا راستہ اپنائے ہوئے ہے۔ یہ جماعت نیشنل سکیورٹی پالیسی پر سوال اٹھا رہی ہے اور قومی بیانیے میں غلطیوں کی نشاندہی کر کے طاقتوں کو سب سے زیادہ تکلیف دے رہی ہے۔ آج کا سب سے مضبوط بیانیہ یہ ہے کہ تمام سیاسی قیادت کرپٹ اور نا اہل ہے۔
ڈی فیکٹو سسٹم کے ساتھ کام چلانا ملک کی مجبوری ہے لیکن پی ٹی ایم کے ہوتے ہوئے اس بیانیہ کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے کیونکہ پی ٹی ایم جواب میں اس طاقت کے اپنے کاموں پر سوال اٹھا دیتی ہے۔ غدار قرار دینے کے معاملے میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ طریقہ اب بہت پرانا ہو چکا ہے۔ یہ اب نہ تو فائدہ مند ہے اور نہ قابل اعتماد۔ اس کا قابل عمل نہ ہونا ایک تاریخی حقیقت ہے۔ یہ طریقہ بہت سے قوم پرست رہنماؤں کے خلاف کامیابی سے استعمال کیا جا چکا ہے جو اپنے لوگوں میں بہت مقبول تھے۔ لیکن جب یہ حربہ استعمال ہوتا ہے تو یہ نفرت مٹانے کی بجائے آگ لگانے کا کام کرتا ہے۔
اگر آپ اپنے دشمن کو چوہا کہیں گے تو آپ کی طرف سے بے توقیری دشمن کو اس کے حامیوں کی نظر میں کمزور نہیں کرتی۔ اس سے اس کی سپورٹ بیس زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ پنجاب کی طرف سے پی ٹی ایم کے ساتھ نفرت انگیز رویہ پی ٹی آئی کو پشتون کمیونٹی کی نظر میں زیادہ قابل اعتماد بنائے گا۔ چھوٹی چھوٹی بات پر غداری کے فتوے پھینکنا ڈی فیکٹو سسٹم کے ایک اہم مسئلے پر روشنی ڈالتا ہے۔
یہ نظام بلیک اینڈ وائٹ دنیا کے لیے لایا جاتا ہے۔ آپ یا اس کے ساتھ رہ سکتے ہیں یا مخالفت کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ساتھی ہیں تو محب وطن ہیں۔ اگر اس کے مخالف ہیں تو غدار ہیں اور دشمن کے ساتھی ہیں۔ ڈی فیکٹو ماڈل میں پریشر کو ریلیز کرنے کا کوئی والو نہیں ہوتا۔ نہ تنازعات کے حل کا کوئی میکنزم ہوتا ہے اور نہ مفادات کے ٹکراؤ کو صلح صفائی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان جیسے متنوع ممالک ایسے نظام کے ساتھ گزارا نہیں کر سکتے جن میں مفادات کا ٹکراؤ نہ روکا جا سکتا ہو اور صلح صفائی کی آپشن موجود نہ ہو۔
ڈی فیکٹو سسٹم اداروں کی آزادی کی صورت میں قائم نہیں رہ سکتا۔ کوئی بھی شہری ریاست سے ناراضی کی صورت میں آئینی ضابطوں کے مطابق عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔ لیکن ایک ایسا سسٹم جس کا مقولہ ہی جنگ اور محبت میں سب جائز والا بیان ہو وہاں کسی قسم کی غیر جانبداری کی گنجائش موجود نہیں رہ سکتی۔ لاپتہ افراد کے کیسز عدالتوں میں آگے نہیں بڑھ سکتے کیونکہ ان کو اجازت ہی نہیں دی جاتی۔ جسٹس شوکت صدیقی جن کے خلاف پہلے سے ہی مس کنڈکٹ کے کئی ریفرنسز موجود ہیں انہوں نے جیسے ہی ڈی فیکٹو سسٹم پر عدالتی نظام میں مداخلت کا الزام لگایا، انہیں سائیڈ لائن کر دیا گیا۔
جسٹس فائز عیسی کے خلاف ایک مہم چلائی گئی اور یہ مہم بار میں موجود کچھ مخصوص لوگوں کے ذریعے اس لیے چلائی گئی کہ جسٹس فائز عیسی نے اس ڈی فیکٹو سسٹم کو فیض آباد دھرنا کیس میں تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ وہ خود مختار آواز رکھنے والے واحد شخص نہیں ہیں جن پر اس طرح حملہ کیا گیا ہو۔ اس سے قبل 2014 میں جسٹس جواد ایس خواجہ کے خلاف ریڈ زون میں رات کے وقت بینرز آویزاں کر دیے گئے تھے اوراس کے ذمہ داروں کا کوئی کبھی تعین نہ کر پایا۔
نام خفیہ رکھنا ایک بہت بڑا اثاثہ ثابت ہوتا ہے۔ لیکن ہر مقصد کو بغیر چہرہ دکھائے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ڈی فیکٹو سسٹم کو ایک ایسی عدلیہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو صاحب اختیار کی مرضی کے مطابق بہترین طریقے سے کام سر انجام دے۔ قانون کی حکمرانی ایک ایسا تصور ہے جو ڈی جورے نظام سے تعلق رکھتا ہے۔ ڈی فیکٹو ماڈل جنگی منشور کے مطابق چلتا ہے۔ جنگیں درست طریقے کی تنکنیکی ضروریات کی پابندی کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ اس میں اہمیت جیت کی ہوتی ہے نہ کہ درست طریقہ اختیار کرنے کی۔ جنگوں میں نقصان بھی ہوتا ہے اور اپنے لوگوں کی جانیں بھی جاتی ہیں۔ ریاست کے فائدہ کے لیے کچھ قیمتی جانیں قربان کرنا پڑتی ہیں۔ جنگی منشور کی اپنی ایک لاجک ہوتی ہے۔ لیکن یہ اسی وقت استعمال کیا جانا چاہیے جب جنگی حالات ہوں نہ کہ امن کے دنوں میں۔ ڈی فیکٹو سسٹم ہر معاملے پر جنگی حالات نافذ کرتا ہے اور جنگی منشور کر مستقل طور پر نافذ کر دیتا ہے۔
اس میں قانون کی حکمرانی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایک فیڈریشن کے اندر فیڈریٹنگ یونٹس اور سینٹر ایک دوسرے کی ترجیحات سے اختلاف کے باوجود اکٹھے چل سکتے ہیں۔ اس سے جوڑوں کے بیچ حرکت کے لیے جگہ پیدا ہوتی ہے۔ یہ اختلاف کے باوجود تعاون کی گنجائش پیدا کرتا ہے۔ اس سے فیڈریٹنگ یونٹس کے بیچ بہترین مقابلہ بازی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ اس سے ایسی پالیسیاں وجود میں آتی ہیں جن کی وجہ سے کوئی خاص پارٹی فاتح نہیں بنتی لیکن کوئی پاگل پن کی حد تک بھی نہیں جا سکتا۔
ایک ٹوٹلٹیرین سسٹم جو متنوع کلچر پر زبردستی تھونپ دیا جائے تو وہاں سب ادارے ایک جیسے نظر آنے لگتے ہیں۔ یہاں اختلاف اور دلچسپیوں کے ملاپ کا چانس بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اس ڈیفیکٹو سسٹم کو یہ معلوم ہے کہ ملٹری قیادت کو براہ راست سامنے لا کر اس کی ہتک کروانا ایک درست اقدام نہیں ہوگا۔ لیکن کیا اسے یہ سمجھ نہیں ہے کہ یہی لاجک تمام دوسرے اداروں کے بارے میں بھی لاگو ہوتی ہے؟ ایک ایسی عدلیہ جسے غیر جانبدار اور منصفانہ نہ سمجھا جا رہا ہو وہ قابل اعتماد عدلیہ نہیں کہلاتی۔
ایک ایسا میڈیا جسے ڈرا دھمکا کرسچ بولنے سے روکے رکھا گیا ہو بہترین اور قابل اعتماد میڈیا نہیں کہلا سکتا۔ ایک ایسا ملک جہاں ڈی جی آئی ایس پی آر کی بات پوری کابینہ کی بات سے زیادہ وزن رکھتی ہو وہاں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ لوگ مزاح کے طور پر وزیر اعظم کو سلیکٹڈ وزیر اعظم قرار دیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے میڈیا کے کردار پر خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر 1971 میں میڈیا آج کے میڈیا کی طرح ذمہ دار اور محب وطن ہوتا تو جنگ کے نتائج مختلف ہوتے۔
اس کے بعد انہوں نے پی ٹی ایم کا میڈیا ٹرائل شروع کیا۔ میڈیا نمائندوں کو ہدایت جاری کی کہ وہ پی ٹی ایم کو میڈیا پر جگہ نہ دیں اور نہ انہیں دفاع کا حق دیا جائے۔ کیا ہمارے ڈی فیکٹو سسٹم نے ففتھ جنریشن وار تھیوریز کی حد سے زیادہ خوراک لے لی ہے؟ میڈیا کو ایک تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا زیادہ بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ زیادہ بڑا مسئلہ وہ امید ہے جو ڈیفیکٹو سسٹم نے اس تجربہ سے جوڑ رکھی ہے۔ کیا میڈیا کو ہتھیار سے لیس کر کے اور ڈی فیکٹو سسٹم کی خواہشات کے مطابق رپورٹنگ کا پابند بنا کر ہماری حقیقت بدل جائے گی؟
کیا دنیا اچانک پاکستان کو ایک نئے تصور کے ساتھ دیکھے گی اگر ہمارا میڈیا یہ کہنا شروع کر دے کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں؟ کیا اگر پنجابی اینکرز منظور پشتین کو غدار قرار دے دیں تو پشتون سپورٹرز منظور پشتین پر پتھر برسانا شروع کر دیں گے؟ کیا مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کو مودی کا یار ہونے کی وجہ سے ڈِچ کیا تھا؟ کیا انڈین میڈیا کا اینٹی پاکستان پروپیگنڈا کسی بھی پاکستانی کو بھارتی میڈیا کا ہم خیال بنا سکتا ہے؟ قاصد کو مارنے سے جنگون کے نتائج نہیں بدلا کرتے۔ 1971 کے نتائج تب تک ویسے ہی رہیں گے جیسے تب تھے جب تک ہم اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل نہیں کرتے جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔ لیکن بدقسمتی سے ابھی تک اس کے بدلنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔