غدار پیدا کرنے کی روش

جاسم محمد

محفلین
غدار پیدا کرنے کی روش
10/05/2019 بابر ستار


آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے پچھلی پریس بریفنگ میں ایک بات کی تصدیق کر دی، انہوں نے اس تاریخی جملے کی سچائی کو عیاں کر دیا کہ “چیزیں جتنی زیادہ تبدیل ہوتی ہیں اتنی ہی زیادہ ویسی ہی رہتی ہیں۔” ہمارے علاقوں میں دہشت گرد پیدا کرنا ایک بہت پرانا معمول ہے۔ لیکن کیا اس سے پاکستان کو خاطر خواہ فائدہ ہوا؟ اس سے ہمارے عوام میں فالٹ لائنز کا خاتمہ ہوا یا یہ مزید گہری ہوتی گئیں۔ کیا اس نے پاکستانی شہریوں کو زیادہ متحد قوم بنا دیا ہے یا نہیں؟ کیا لوگوں کو غدار قرار دینا اختلافی آوازوں کو دبانے کا سب سے موثر ذریعہ ہے، تنقید کو روک سکتا ہے اوررائے عامہ کو کنٹرول کر سکتا ہے؟

طاقت اور اختیار کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جس کے پاس یہ چیز ہوتی ہے وہ پوری کی پوری طاقت حاصل کر لینا چاہتے ہیں۔ جس کے پاس جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ اتنا ہی اس کا غلط استعمال کرتا ہے اور جو اسے روکنے کی کوشش کرے اس پر کڑھنے لگتا ہے۔ طاقت کے استعمال میں توازن کے لیے تمام ادارے اختیار کو تقسیم کر لیتے ہیں اور کچھ چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے اختیار کے غلط استعمال کو روک لیتے ہیں۔ ہمارا آئین بھی اختیارات کی تقسیم کی ایک دستاویز ہے جو اظہار رائے اور معلومات کی مکمل آزادی شہریوں کو مہیا کرتا ہے تا کہ اختیارات کے استعمال کے معاملے میں تنقید اور جانچ پڑتال ممکن ہو سکے۔ لیکن زمینی حقیقتوں کے کتابی اصولوں پر غلبہ کی وجہ سے ہمارے ہاں آئینی چیک اینڈ بیلنس کے تمام طریقے بے کار اور غیر فعال ہیں۔

سول ملٹری تعلقات میں تلخی کی وجہ سے یہ فالٹ لائنز اس قدر گہری ہو چکی ہیں کہ معاملہ جمہوریت بمقابلہ ملوکیت، فیڈرل ازم بمقابلہ سنٹرل کنٹرول اور ریڈیکل ازم بمقابلہ نیشنل ازم جیسی صورت حال اختیار کر چکا ہے۔ ہم نے ہر دس برس کے کے بعد جمہوریت میں فوج کی مداخلت کا سامنا کیا ہے۔ آج ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ فوج کا پس پردہ تمام ریاستی اداروں اور ریاست پر کنٹرول ہے۔ اگر ملٹری لیڈرشپ کی خواہش تھی کہ وہ اختیار اور ذمہ داری میں سے حصہ حاصل کرے، خود اقتدار پر قابض ہو جائے اور ذمہ داریاں سیاسی لیڈر شپ پر ڈال دے تو یہ منصوبہ بھر پور طریقے سے پایہ تکمیل پہنچ چکا ہے۔

ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ڈی فیکٹو سسٹم قابل استعمال ہے بھی یا نہیں۔ آئی ایس پی آر کی یہ بریفنگ اس ماڈل کے حمایتیوں اور معماروں کے بارے میں ایک اہم اور معلوماتی پروگرام سے کم نہیں تھی۔ پی ٹی ایم کو غدار قرار دینے کا مقصد اس پلان کے راستے میں آنے والی اس رکاوٹ کا خاتمہ کرنا تھا۔ سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کو ڈی فیکٹو سسٹم کو قبول کرنے پر مجبور کر لینے کے بعد یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پی ٹی ایم کی صورت میں ایک جماعت سب سے طاقتور ادارے کو آنکھیں دکھائے۔

پی ٹی ایم بادشاہ کے تاج میں ایک کانٹا بن گئی ہے۔ اور بادشاہ نا صرف ناراض ہے بلکہ غصے میں بھی ہے۔ وہ غدار ہوں یا نہ ہوں، اس وقت پی ٹی ایم ملک میں واحد ایسی جماعت ہے جو اختلاف کا راستہ اپنائے ہوئے ہے۔ یہ جماعت نیشنل سکیورٹی پالیسی پر سوال اٹھا رہی ہے اور قومی بیانیے میں غلطیوں کی نشاندہی کر کے طاقتوں کو سب سے زیادہ تکلیف دے رہی ہے۔ آج کا سب سے مضبوط بیانیہ یہ ہے کہ تمام سیاسی قیادت کرپٹ اور نا اہل ہے۔

ڈی فیکٹو سسٹم کے ساتھ کام چلانا ملک کی مجبوری ہے لیکن پی ٹی ایم کے ہوتے ہوئے اس بیانیہ کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے کیونکہ پی ٹی ایم جواب میں اس طاقت کے اپنے کاموں پر سوال اٹھا دیتی ہے۔ غدار قرار دینے کے معاملے میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ طریقہ اب بہت پرانا ہو چکا ہے۔ یہ اب نہ تو فائدہ مند ہے اور نہ قابل اعتماد۔ اس کا قابل عمل نہ ہونا ایک تاریخی حقیقت ہے۔ یہ طریقہ بہت سے قوم پرست رہنماؤں کے خلاف کامیابی سے استعمال کیا جا چکا ہے جو اپنے لوگوں میں بہت مقبول تھے۔ لیکن جب یہ حربہ استعمال ہوتا ہے تو یہ نفرت مٹانے کی بجائے آگ لگانے کا کام کرتا ہے۔

اگر آپ اپنے دشمن کو چوہا کہیں گے تو آپ کی طرف سے بے توقیری دشمن کو اس کے حامیوں کی نظر میں کمزور نہیں کرتی۔ اس سے اس کی سپورٹ بیس زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ پنجاب کی طرف سے پی ٹی ایم کے ساتھ نفرت انگیز رویہ پی ٹی آئی کو پشتون کمیونٹی کی نظر میں زیادہ قابل اعتماد بنائے گا۔ چھوٹی چھوٹی بات پر غداری کے فتوے پھینکنا ڈی فیکٹو سسٹم کے ایک اہم مسئلے پر روشنی ڈالتا ہے۔

یہ نظام بلیک اینڈ وائٹ دنیا کے لیے لایا جاتا ہے۔ آپ یا اس کے ساتھ رہ سکتے ہیں یا مخالفت کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ساتھی ہیں تو محب وطن ہیں۔ اگر اس کے مخالف ہیں تو غدار ہیں اور دشمن کے ساتھی ہیں۔ ڈی فیکٹو ماڈل میں پریشر کو ریلیز کرنے کا کوئی والو نہیں ہوتا۔ نہ تنازعات کے حل کا کوئی میکنزم ہوتا ہے اور نہ مفادات کے ٹکراؤ کو صلح صفائی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان جیسے متنوع ممالک ایسے نظام کے ساتھ گزارا نہیں کر سکتے جن میں مفادات کا ٹکراؤ نہ روکا جا سکتا ہو اور صلح صفائی کی آپشن موجود نہ ہو۔

ڈی فیکٹو سسٹم اداروں کی آزادی کی صورت میں قائم نہیں رہ سکتا۔ کوئی بھی شہری ریاست سے ناراضی کی صورت میں آئینی ضابطوں کے مطابق عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔ لیکن ایک ایسا سسٹم جس کا مقولہ ہی جنگ اور محبت میں سب جائز والا بیان ہو وہاں کسی قسم کی غیر جانبداری کی گنجائش موجود نہیں رہ سکتی۔ لاپتہ افراد کے کیسز عدالتوں میں آگے نہیں بڑھ سکتے کیونکہ ان کو اجازت ہی نہیں دی جاتی۔ جسٹس شوکت صدیقی جن کے خلاف پہلے سے ہی مس کنڈکٹ کے کئی ریفرنسز موجود ہیں انہوں نے جیسے ہی ڈی فیکٹو سسٹم پر عدالتی نظام میں مداخلت کا الزام لگایا، انہیں سائیڈ لائن کر دیا گیا۔

جسٹس فائز عیسی کے خلاف ایک مہم چلائی گئی اور یہ مہم بار میں موجود کچھ مخصوص لوگوں کے ذریعے اس لیے چلائی گئی کہ جسٹس فائز عیسی نے اس ڈی فیکٹو سسٹم کو فیض آباد دھرنا کیس میں تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ وہ خود مختار آواز رکھنے والے واحد شخص نہیں ہیں جن پر اس طرح حملہ کیا گیا ہو۔ اس سے قبل 2014 میں جسٹس جواد ایس خواجہ کے خلاف ریڈ زون میں رات کے وقت بینرز آویزاں کر دیے گئے تھے اوراس کے ذمہ داروں کا کوئی کبھی تعین نہ کر پایا۔

نام خفیہ رکھنا ایک بہت بڑا اثاثہ ثابت ہوتا ہے۔ لیکن ہر مقصد کو بغیر چہرہ دکھائے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ڈی فیکٹو سسٹم کو ایک ایسی عدلیہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو صاحب اختیار کی مرضی کے مطابق بہترین طریقے سے کام سر انجام دے۔ قانون کی حکمرانی ایک ایسا تصور ہے جو ڈی جورے نظام سے تعلق رکھتا ہے۔ ڈی فیکٹو ماڈل جنگی منشور کے مطابق چلتا ہے۔ جنگیں درست طریقے کی تنکنیکی ضروریات کی پابندی کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ اس میں اہمیت جیت کی ہوتی ہے نہ کہ درست طریقہ اختیار کرنے کی۔ جنگوں میں نقصان بھی ہوتا ہے اور اپنے لوگوں کی جانیں بھی جاتی ہیں۔ ریاست کے فائدہ کے لیے کچھ قیمتی جانیں قربان کرنا پڑتی ہیں۔ جنگی منشور کی اپنی ایک لاجک ہوتی ہے۔ لیکن یہ اسی وقت استعمال کیا جانا چاہیے جب جنگی حالات ہوں نہ کہ امن کے دنوں میں۔ ڈی فیکٹو سسٹم ہر معاملے پر جنگی حالات نافذ کرتا ہے اور جنگی منشور کر مستقل طور پر نافذ کر دیتا ہے۔

اس میں قانون کی حکمرانی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایک فیڈریشن کے اندر فیڈریٹنگ یونٹس اور سینٹر ایک دوسرے کی ترجیحات سے اختلاف کے باوجود اکٹھے چل سکتے ہیں۔ اس سے جوڑوں کے بیچ حرکت کے لیے جگہ پیدا ہوتی ہے۔ یہ اختلاف کے باوجود تعاون کی گنجائش پیدا کرتا ہے۔ اس سے فیڈریٹنگ یونٹس کے بیچ بہترین مقابلہ بازی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ اس سے ایسی پالیسیاں وجود میں آتی ہیں جن کی وجہ سے کوئی خاص پارٹی فاتح نہیں بنتی لیکن کوئی پاگل پن کی حد تک بھی نہیں جا سکتا۔

ایک ٹوٹلٹیرین سسٹم جو متنوع کلچر پر زبردستی تھونپ دیا جائے تو وہاں سب ادارے ایک جیسے نظر آنے لگتے ہیں۔ یہاں اختلاف اور دلچسپیوں کے ملاپ کا چانس بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اس ڈیفیکٹو سسٹم کو یہ معلوم ہے کہ ملٹری قیادت کو براہ راست سامنے لا کر اس کی ہتک کروانا ایک درست اقدام نہیں ہوگا۔ لیکن کیا اسے یہ سمجھ نہیں ہے کہ یہی لاجک تمام دوسرے اداروں کے بارے میں بھی لاگو ہوتی ہے؟ ایک ایسی عدلیہ جسے غیر جانبدار اور منصفانہ نہ سمجھا جا رہا ہو وہ قابل اعتماد عدلیہ نہیں کہلاتی۔

ایک ایسا میڈیا جسے ڈرا دھمکا کرسچ بولنے سے روکے رکھا گیا ہو بہترین اور قابل اعتماد میڈیا نہیں کہلا سکتا۔ ایک ایسا ملک جہاں ڈی جی آئی ایس پی آر کی بات پوری کابینہ کی بات سے زیادہ وزن رکھتی ہو وہاں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ لوگ مزاح کے طور پر وزیر اعظم کو سلیکٹڈ وزیر اعظم قرار دیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے میڈیا کے کردار پر خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر 1971 میں میڈیا آج کے میڈیا کی طرح ذمہ دار اور محب وطن ہوتا تو جنگ کے نتائج مختلف ہوتے۔

اس کے بعد انہوں نے پی ٹی ایم کا میڈیا ٹرائل شروع کیا۔ میڈیا نمائندوں کو ہدایت جاری کی کہ وہ پی ٹی ایم کو میڈیا پر جگہ نہ دیں اور نہ انہیں دفاع کا حق دیا جائے۔ کیا ہمارے ڈی فیکٹو سسٹم نے ففتھ جنریشن وار تھیوریز کی حد سے زیادہ خوراک لے لی ہے؟ میڈیا کو ایک تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا زیادہ بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ زیادہ بڑا مسئلہ وہ امید ہے جو ڈیفیکٹو سسٹم نے اس تجربہ سے جوڑ رکھی ہے۔ کیا میڈیا کو ہتھیار سے لیس کر کے اور ڈی فیکٹو سسٹم کی خواہشات کے مطابق رپورٹنگ کا پابند بنا کر ہماری حقیقت بدل جائے گی؟

کیا دنیا اچانک پاکستان کو ایک نئے تصور کے ساتھ دیکھے گی اگر ہمارا میڈیا یہ کہنا شروع کر دے کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں؟ کیا اگر پنجابی اینکرز منظور پشتین کو غدار قرار دے دیں تو پشتون سپورٹرز منظور پشتین پر پتھر برسانا شروع کر دیں گے؟ کیا مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کو مودی کا یار ہونے کی وجہ سے ڈِچ کیا تھا؟ کیا انڈین میڈیا کا اینٹی پاکستان پروپیگنڈا کسی بھی پاکستانی کو بھارتی میڈیا کا ہم خیال بنا سکتا ہے؟ قاصد کو مارنے سے جنگون کے نتائج نہیں بدلا کرتے۔ 1971 کے نتائج تب تک ویسے ہی رہیں گے جیسے تب تھے جب تک ہم اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل نہیں کرتے جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔ لیکن بدقسمتی سے ابھی تک اس کے بدلنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
 
ہم نے ہر دس برس کے کے بعد جمہوریت میں فوج کی مداخلت کا سامنا کیا ہے۔ آج ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ فوج کا پس پردہ تمام ریاستی اداروں اور ریاست پر کنٹرول ہے۔ اگر ملٹری لیڈرشپ کی خواہش تھی کہ وہ اختیار اور ذمہ داری میں سے حصہ حاصل کرے، خود اقتدار پر قابض ہو جائے اور ذمہ داریاں سیاسی لیڈر شپ پر ڈال دے تو یہ منصوبہ بھر پور طریقے سے پایہ تکمیل پہنچ چکا ہے۔

حقیقت ٹی وی چینل کی ویڈیوز دیکھ کر ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جس طرح کی لولی لنگڑی حکومت عمران خان کو بناکر دی گئی ہے وہ اس سے خوش نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوبارہ الیکشن کرواکر انہیں مطلق اکثریت دی جائے تاکہ وہ ایک آرڈیننس کے ذریعے صدارتی نظام نافذ کرسکیں۔

تھالی کے بینگنوں اور لوٹوں نے پچھلے آٹھ ماہ وہ طوفانِ بدتمیزی مچایا کہ محکمہ زراعت کو مداخلت کرنی پڑی اور ٹیکنوکریٹ اور پرانے پاپیوں کو وزارتیں دینی پڑیں ِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ

کیا ثبوت ہے کہ عمران خان کو صدر بناکر تمام طاقت ان کے سپرد کردینے کے بعد وہ پچھلے آٹھ ماہ جیسی حماقتیں نہیں کریں گے۔ اب ان پر لازم ہے کہ وہ بیبے بچے بن کر ٹیکنوکریٹس کی اس حکومت کی سربراہی کریں ورنہ حقیقت ٹی وی کچھ اور خفیہ پروگراموں پر سے پردہ اٹھانے پر مجبور ہوجائے گا ۔
 

آصف اثر

معطل
حقیقت ٹی وی چینل کی ویڈیوز دیکھ کر ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جس طرح کی لولی لنگڑی حکومت عمران خان کو بناکر دی گئی ہے وہ اس سے خوش نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوبارہ الیکشن کرواکر انہیں مطلق اکثریت دی جائے تاکہ وہ ایک آرڈیننس کے ذریعے صدارتی نظام نافذ کرسکیں۔

تھالی کے بینگنوں اور لوٹوں نے پچھلے آٹھ ماہ وہ طوفانِ بدتمیزی مچایا کہ محکمہ زراعت کو مداخلت کرنی پڑی اور ٹیکنوکریٹ اور پرانے پاپیوں کو وزارتیں دینی پڑیں ِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ

کیا ثبوت ہے کہ عمران خان کو صدر بناکر تمام طاقت ان کے سپرد کردینے کے بعد وہ پچھلے آٹھ ماہ جیسی حماقتیں نہیں کریں گے۔ اب ان پر لازم ہے کہ وہ بیبے بچے بن کر ٹیکنوکریٹس کی اس حکومت کی سربراہی کریں ورنہ حقیقت ٹی وی کچھ اور خفیہ پروگراموں پر سے پردہ اٹھانے پر مجبور ہوجائے گا ۔
لیکن سننے میں آیا ہے کہ یہ بھی خفیہ والوں کا چینل ہے۔ یعنی وردی والوں کا حامی۔ کیا یہ درست ہے؟
 
لیکن سننے میں آیا ہے کہ یہ بھی خفیہ والوں کا چینل ہے۔ یعنی وردی والوں کا حامی۔ کیا یہ درست ہے؟
وللہ اعلم!

لیکن کیا آپ نہیں دیکھتے کہ حقیقت ٹی وی، ڈاکٹر شاہد مسعود و دیگر کا ہاتھ ہمیشہ ان کی نبض پر ہوتا ہے؟
 

آصف اثر

معطل
یہاں حقیقت ٹی وی اعتراف بھی کررہا ہے اور آخر میں کھلم کھلا دھمکی بھی!

 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
حقیقت ٹی وی چینل کی ویڈیوز دیکھ کر ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جس طرح کی لولی لنگڑی حکومت عمران خان کو بناکر دی گئی ہے وہ اس سے خوش نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوبارہ الیکشن کرواکر انہیں مطلق اکثریت دی جائے تاکہ وہ ایک آرڈیننس کے ذریعے صدارتی نظام نافذ کرسکیں۔
اسٹیبلشمنٹ کے پاس 72 سالہ طویل تجربہ ہے۔ اس قسم کی ’غلطیاں‘ نہیں کرتی۔
عمران خان پریس کانفرنس میں اعلان کر چکے ہیں کہ ملک میں کوئی صدارتی نظام نافذ نہیں ہو رہا۔

تھالی کے بینگنوں اور لوٹوں نے پچھلے آٹھ ماہ وہ طوفانِ بدتمیزی مچایا کہ محکمہ زراعت کو مداخلت کرنی پڑی اور ٹیکنوکریٹ اور پرانے پاپیوں کو وزارتیں دینی پڑیں
وزارتوں میں رد و بدل کے پیچھے محکمہ زراعت نہیں آئی ایم ایف ہے۔ دراصل اسد عمر آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر آمادہ نہیں تھے۔ جسکی وجہ سے قرضوں میں مسلسل تاخیر ہو رہی تھی۔ اب میدان صاف ہے اور معاہدہ بھی طے پا گیا ہے :)
Whats-App-Image-2019-05-11-at-03-06-21.jpg
 

آصف اثر

معطل
اسٹیبلشمنٹ کے پاس 72 سالہ طویل تجربہ ہے۔ اس قسم کی ’غلطیاں‘ نہیں کرتی۔
عمران خان پریس کانفرنس میں اعلان کر چکے ہیں کہ ملک میں کوئی صدارتی نظام نافذ نہیں ہو رہا۔


وزارتوں میں رد و بدل کے پیچھے محکمہ زراعت نہیں آئی ایم ایف ہے۔ دراصل اسد عمر آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر آمادہ نہیں تھے۔ جسکی وجہ سے قرضوں میں مسلسل تاخیر ہو رہی تھی۔ اب میدان صاف ہے اور معاہدہ بھی طے پا گیا ہے :)
Whats-App-Image-2019-05-11-at-03-06-21.jpg
خلیل صاحب شائد انڈائرکٹ کا ذکر کرنا چاہ رہے تھے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ ملے گا تو بکرے ذبح ہوں گے۔ شاپنگ ہوگی۔ بیرون ملک دورے ہوں گے۔ پیٹ بھریں گے۔ اغڑم دغڑم ہوگا۔
 

جاسم محمد

محفلین
خلیل صاحب شائد انڈائرکٹ کا ذکر کرنا چاہ رہے تھے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ ملے گا تو بکرے ذبح ہوں گے۔ شاپنگ ہوگی۔ بیرون ملک دورے ہوں گے۔ پیٹ بھریں گے۔ اغڑم دغڑم ہوگا۔
متفق۔ یہ طویل سیاسی ڈرامہ ختم ہونے والا نہیں۔

سیاست کا مقبول ترین اور مسلسل ڈرامہ
عتیق الرحمٰن جمع۔ء 10 مئ 2019
1660466-pakistanisiyasatordrama-1557297972-929-640x480.jpg

پاکستانی سیاست بھی اسکرین پر چلنے والے ڈرامے کی مانند ہے۔ (فوٹو: فائل)


ٹی وی اسکرین پر ڈرامہ دیکھنے والے اس میں اتنا کھو جاتے ہیں کہ انہیں اس پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے، اس میں کسی حد تک اسکرپٹ، ڈائریکشن اور اداکاروں کی اداکاری کا بھی عمل دخل ہوتا ہے، جو اسکرپٹ میں اس طرح حقیقت کے رنگ بھرتے ہیں کہ ہر شخص اسے اپنے سامنے ہونے والے سچے واقعات کا مجموعہ سمجھتا ہے۔

پاکستانی سیاست بھی اسکرین پر چلنے والے ڈرامے کی مانند ہے، جس میں حقیقت کی ایسی شباہت پیدا کی جاتی ہے کہ دیکھنے والے کو واقعات ارتقائی عمل کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ جبکہ اسکرین کے پیچھے لکھے گئے اسکرپٹ اور ڈائریکٹر کا نہ انہیں ادراک ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی دسترس اور عملم و شعور اتنا ہوتا ہے کہ وہ سیاست کی باریکیوں کو سمجھ سکیں۔ اسی وجہ سے وہ حالات و واقعات کو اپنی تقدیر سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں۔

کچھ خواص ایسے بھی ہیں جو اسکرین کے پیچھے دیکھنے کی سکت رکھتے ہیں اور ہونے والے واقعات کا تسلسل سمجھ بھی رہے ہوتے ہیں، لیکن وہ اس پر خاموشی اختیار کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کے ذاتی مفاد کا معاملہ ہوتا ہے یا پھر وہ حقیقت سے دامن بچا رہے ہوتے ہیں اور اس کا سامنا نہیں کرسکتے۔

ہمارے ادارے بالخصوص سیکیورٹی سے متعلقہ ملک کی سرحدوں کے پاسبان ہیں اور اس محاذ پر بہت اچھے انداز میں اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں ادا کررہے ہیں۔ سیاست دانوں اور سول اداروں کی ناکامی، کرپشن، نااہلی اور اپنے مقام کا ادراک نہ ہونے کی وجہ سے عسکری ادارے کو سیاسی اور دیگر ریاستی معاملات میں دخل اندازی کرنا پڑتی ہے؛ اور یہ جو سلسلہ شروع ہوا تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ عسکری ادارے براہ راست بھی ملک پر حکمرانی کرتے رہے ہیں اور وہ دور سیاسی حکومتوں کی نسبت ترقی، خوشحالی، استحکام اور پالیسی کے تسلسل کے اعتبار سے اچھا رہا، جس نے عوام میں بھی اس ادارے کے اضافی کردار کےلیے نرم گوشہ اور قبولیت پیدا کی۔

اس میں زیادہ قصور ہمارے سیاستدانوں کا ہے جو اب تک ذاتی آمریت سے باہر نہیں نکل سکے اور انہوں نے نہ اپنی جماعت اور نہ ہی ملک میں جمہوریت کو پروان چڑھایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج سیاست پر صرف چند خاندانوں کی حکمرانی ہے۔

اگر ہم ماضی کے حالات و واقعات پر نظر دوڑائیں اور اس کا گہرائی سے جائزہ لیں تو ہمیں سیاسی کھیل اور اس کے محرکات سمجھ میں آنا شروع ہوجائیں گے۔ ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ کیسے 70 اور 80 کی دہائیوں میں سیاسی قیادتیں پیدا کی گئیں جو اپنی صلاحیت اور تجربے کے اعتبار سے کسی طور بھی اس مقام کے قابل نہیں تھیں۔ خود ساختہ تجزیے کے تحت کسی کو ریاست مخالف سمجھا گیا، پھر اس کا مقابلہ کرنے کےلیے بہت سے کردار پیدا کیے گئے۔ مختلف شہروں اور صوبوں میں انہیں ابھرنے کے مواقع فراہم کیے گئے تاکہ ان سےمخصوص وقت اور حالات میں ریاست کے وسیع تر مفاد میں کام لیا جاسکے۔ وہ فیصلے کچھ جگہوں پر ریاست کے حق میں معروضی حالات اور مخصوص وقت میں سودمند بھی ثابت ہوئے لیکن مستقبل میں ان کے اثرات آج تک ریاست بھگت رہی ہے۔

جہاں سندھ کے حالات کو دیکھتے ہوئے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کو ابھارا اور بار بار موقع دیا گیا، ویسے ہی اپنے مقاصد کےلیے پروان چڑھائے گئے سیاستدانوں کو اقتدار میں لانے کےلیے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا، جس کی فنڈنگ کے واقعات حال ہی میں عدالت میں زیرسماعت رہے اور میڈیا کی بھی زینت بنے۔ یہ عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے جس میں ایک خاص وقت تک بے نظیر بھٹو کی جگہ نواز شریف کو سپورٹ کیا گیا اور ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ یہ گروپ برسر اقتدار آئے اور ریاستی پالیسی کو آگے بڑھائے۔ پھر ایک وقت آیا کہ پیپلز پارٹی بھی گڈ بُک میں شامل ہوگئی اور اقتدار میں شراکت داری کا فارمولا اختیار کیا۔

کئی سیاسی اداکار آئے اور اپنے حصے کا کردار ادا کرکے چلے گئے۔ کبھی ایم ایم اے بنائی گئی جس میں وہ جماعتیں بھی شیر و شکر ہوگئیں جو ایک دوسرے کو مسلمان ماننے کےلیے بھی تیار نہ تھیں۔ اس ڈرامے میں ایسا کراماتی رنگ بھرا گیا کہ اپنی سیٹ بھی نہ جیتنے والے، دو صوبوں میں حکومت اور مرکز میں اپوزیشن لیڈر بن گئے۔ پانچ سال بعد جب اس جنتر منتر کا اثر ختم ہوا تو سب طلسم ٹوٹ گیا۔

لیکن اکثر ایسا ہوا کہ جس گروپ کو ایک ذمے داری دی گئی، اس نے اپنے کردار اور حیثیت سے زیادہ کا مطالبہ اور جستجو شروع کردی، کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ قناعت پسند نہیں اور ہمیشہ اوپر کی جانب دیکھتا ہے اور اپنی ذات میں فرعون بن جاتا ہے۔ پنجاب میں شریف خاندان نے امور حکومت میں خود مختاری اور عوام کی فلاح و بہبود سے ہٹ کر اپنی کرپشن اور خاندانی آمریت کے قیام کےلیے جدوجہد شروع کردی تو راستے جدا ہوگئے۔ مسلم لیگ کے بطن سے ق لیگ نے جنم لے لیا، یہی حال سندھ کے شہری علاقوں کی جماعت ایم کیو ایم کا بھی ہوا۔ جب دو بڑی جماعتوں کی آمریت اور کرپشن حد سے بڑھی اور انہیں زیادہ حصہ اور بنا کسی روک ٹوک کرپشن کرنے کی لت لگ گئی تو لامحالہ سیاست کے ڈرامے میں ایک اور کردار کی انٹری کرائی گئی۔

طلسماتی ہاتھ لگنے کی دیر تھی کہ بےجان جسم میں نئی روح پیدا ہوگئی، لوگوں کی آمد شروع ہوئی اور سیاست میں ایک بڑا فریق پیدا ہوگیا۔ اسے تبدیلی کا نیا نعرہ دے دیا گیا۔ لیکن اس کردار کی آمد پہلے کرداروں کو ایک آنکھ نہیں بھائی اور ڈرامے میں نیا ایڈونچر پیدا ہوگیا۔ عوامی رجحان بڑھا اور ان کےلیے تفریح کا سامان بھی پیدا ہوگیا۔ حالیہ الیکشن میں ہیرو کا کردار نئے اداکار کو دینا مشکل تھا، اس لیے پھر سے توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہوا۔ معاون اداکاروں نے نئے ہیرو کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ پھر ایک نئے حادثاتی مولا جٹ کردار کی انٹری کروائی گئی جو نواز شریف کےلیے مشکلات کھڑی کرے۔ مخصوص مسلک کے ووٹ توڑنے کےلیے، ان کا نمائندہ بنوانے کے حالات پیدا کیے گئے۔

اسکرپٹ اتنا جاندار تھا کہ اس قسط نے بھی کامیابی حاصل کی اور اقتدار پر عمران خان براجمان ہوئے؛ اور نیا کردار اب جیل میں آرام کررہا ہے۔

ریاستی ادارے جہاں ملکی سالمیت اور خودمختاری کے ایجنڈے پر کام کرواتے ہیں، وہیں زیادہ طاقت کے نشے میں مبتلا کرداروں کو نئے سے بدلنے کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔ یہ کھیل کئی دہائیوں سے جاری ہے، اور کب تک جاری رہے گا؟ کسی کو خبر نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
Top