الف نظامی
لائبریرین
سستی بجلی کا ڈیمز سے تعلق نہیں بنتا؟سوال گندم جواب چنا۔
مہنگائی پر بات ہو رہی ہے ڈیمز پر نہیں۔
سستی بجلی کا ڈیمز سے تعلق نہیں بنتا؟سوال گندم جواب چنا۔
مہنگائی پر بات ہو رہی ہے ڈیمز پر نہیں۔
نئے ڈیمز بالکل مفت میں بن جاتےہیں؟ بجلی کے بلوں میں ڈیمز کی تعمیر یا ٹرانسمیشن لائنز کا خرچہ سرچارج کی صورت میں شامل ہوتا ہے۔سستی بجلی کا ڈیمز سے تعلق نہیں بنتا؟
ڈیمز آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر بنائیں۔ نہیں؟ڈیمز مفت میں بن جاتےہیں؟ بجلی کے بلوں میں ڈیمز کی تعمیر یا ٹرانسمیشن لائنز کا خرچہ سرچارج کی صورت میں شامل ہوتا ہے۔
ڈیمز کیلئے قرضہ عموما ورلڈ بینک یا ایشیائی ڈولپمنٹ بینک دیتا ہے۔ اس بار چین نے سی پیک کے تحت دیا ہے۔ آئی ایم ایف صرف اس وقت قرض دیتا ہے جب آپ کی حکومتیں سرکاری خزانہ کا منہ کھول کر عوام کو سبسڈیاں دیتی ہیں اور ڈالر کا ریٹ فکس کرکے مہنگائی کو کنٹرول کرتی ہیں۔ اس غلط پالیسی کے تحت ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک گر جاتے ہیں۔ اور ان کو فوری مستحکم کرنے کیلئے آئی ایم ایف سے امداد لینی پڑتی ہے۔ جو امداد تو دے دیتی ہے پر سخت شرائط پر جیسے تمام سبسڈیاں ختم کرو ۔ڈیمز آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر بنائیں۔ نہیں؟
کیا اس حکومت کا دھڑن تختہ کرنا سے زرمبادلہ کے ذخائر اپنے آپ مستحکم ہو جائیں گے تاکہ مہنگائی اپنے آپ کنٹرول میں رہے؟ پاکستان کے ساتھ اور بعد میں آزاد ہونے والے ملک اپنی مستحکم معاشی پالیسیوں کے تحت دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہے ہیں۔ جبکہ ادھر جب بھی سبسڈیاں اور مصنوعی ڈالر ریٹ ختم کر کے معیشت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی تو اپوزیشن اور عوام نے رولا ڈال دیا۔ نتیجہ ہر 5 سال بعد معاشی بحران اور ملک مزید قرض کی چکی میں پسا جا رہا ہے۔مولانا دھڑن تختہ کرنے کے لیے نکلے تو مرد مومن مرد حق سراج الحق سراج الحق نے بھی ان کے بیانیے کی تائید کر دی۔
مہنگائی ملک کو مضبوط اور مستحکم معاشی بنیادوں پر طویل عرصہ چلانے سے ختم ہوگی۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ جب مہنگائی ہوئی تو فوری ریلیف کیلئے اپوزیشن اور عوام سڑکوں پر۔ نتیجتا حکومت اس دباؤ میں آکر اپنی معاشی پالیسی ترک کر کے دوبارہ سبسڈی اور فکس ڈالر والی پالیسی پر چلی جائے۔ اور یوں کچھ عرصہ عارضی رلیف کے بعد مہنگائی کا جن واپس آجائے۔
لاہور کی عوام بغیر سرکاری سبسڈی لئے اور بغیر مصنوعی ڈالر ریٹ کے مہنگائی ختم کرکے دکھائے۔
سراج الحق صاحب نے بروقت درست فیصلہ کیا ہے عوام کو ریلیف دینا سب سے اہم کام ہے۔ حکومت کلی طور پر ناکام ہو چکی ہے۔
عوام کو ریلیف دینا ہر حکومت کا سب سے اہم کام ہے مگراپنی جاری معاشی پالیسیاں تبدیل کر کے فوری ریلیف دینا کوئی اہم کام نہیں ہے۔ جب تک ملکی معیشت مضبوط مستحکم بنیادوں پر کھڑی نہیں ہو جاتی، عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل سکتا۔ عوامی احتجاج سے دباؤ میں آکر ماضی کی غلط معاشی پالیسیوں پر جانا عوام کے فائدہ میں ہے لیکن ملک کے نقصان میں ہے۔سراج الحق صاحب نے بروقت درست فیصلہ کیا ہے عوام کو ریلیف دینا سب سے اہم کام ہے۔ حکومت کلی طور پر ناکام ہو چکی ہے۔
باجوہ ڈاکٹرائن سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی عوام کو فوری ریلیف دینے والی غلط معاشی پالیسیاں مسترد کر چکی ہے۔ جب تک فوج ان مومنین کے خلاف ہے، حکومت کا بال بیکا بھی نہیں ہو سکتا۔ اس کا مطلب اسی حکومت کی معاشی پالیسیاں چلیں گی۔ جتنا مرضی احتجاج کر لیں۔مرد مومن مرد حق سراج الحق صاحب اور مولانا فضل الرحمان صاحب مل کر حکومت کا دھڑن تختہ کر دیں گے۔
باجوہ ڈکٹرائیناسحاق ڈار کے بارے میں کہا کہ He has been an Utter disaster for this country
یہی نواز این آر او نہ ملنے پر کل تک اداروں کو برا بھلا کہہ رہا تھانئی خبر آئی اے
نواز ساڈا بھائی اے
(ادارے)
وہ تو عمران خان بھی کہہ رہا تھا۔یہی نواز کل تک اداروں کو برا بھلا کہہ رہا تھا
مہنگائی کے علاوہ تمام معاشی اشاریے بہتری کی جانب گامزن ہیں:اکنامک انڈیکیٹرز درست نہ ہوں تو پھر ادارے بھی یو ٹرن لے لیا کرتے ہیں ملک کے وسیع تر مفاد میں۔
تو پھر پی پی پی اور ن لیگ پر کیوں بار بار تجربہ کئے گئے 1970 سے؟ کیا ان دونوں جماعتوں نے بار بار باریاں لینے کے باوجود ملک کی معیشت کو مستحکم کر لیا؟سیاست میں کون سی بات حتمی ہوتی ہے۔ دو سال کافی ہوتے ہیں ایک تجربے کو۔
مولانا دھڑن تختہ کر دے گاتو پھر پی پی پی اور ن لیگ پر کیوں بار بار تجربہ کئے گئے 1970 سے؟ کیا ان دونوں جماعتوں نے بار بار باریاں لینے کے باوجود ملک کی معیشت کو مستحکم کر لیا؟