نیلم
محفلین
غرور وتکبر
دو شخص آپس کی مخالفت میں اس حد تک پہنچے ہوئے تھے کہ جیسے چیتے ایک دوسرے پر حملہ کرنے کی سوچتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کے روادار نہ تھے اور ایک دوسرے کی نظروں سےبچنے کے لئے انہیں آسمان تلے جگہ نہ ملتی تھی۔ ان میں سے ایک شخص کا انتقال ہوگیا، اس کی زندگی کا پیمانہ چھلک گیا۔ اس کو موت پر دوسرے کو بہت خوشی ہوئی۔
کافی عرصے بعد دوسرا شخص پہلے کی قبر کے پاس سے گزرا تو اس نے دیکھا کہ جس متکبر کے مکان پر سونے کی پالش ہوئی تھی آج اس کی قبر مٹی سے لپی ہوئی تھی۔ غصے میں آکر اس نے مرے ہوئے دشمن کی قبر کا تختہ اکھاڑ ڈالا، دیکھا تو تاج پہننے والا سر ایک گڑھے میں پڑا ہواتھا۔ اس کی خوبصورت آنکھوں میں مٹی بھری ہوئی تھی وہ قبرکی جیل میں قید ہوچکا تھا اور اس کے جسم کو کیڑے مکوڑے کھا رہے تھے، اس کا موٹا تازہ جسم پہلی رات کےچاند کی طرح دبلا ہوچکا تھااور اس کا سر و قد تنکے کی طرح باریک ہوگیا تھا۔ اس کے پنجے اور ہتھیلی کے جوڑ بالکل علیحدہ ہوچکے تھے۔
یہ حالتِ زار دیکھ کر اسکا دل بھر آیا اور وہ رونے لگا، یہاں تک کہ اس کے رونے سے قبرکی مٹی تر ہوگئی ،وہ اپنے کرتوتوں پر شرمندہ ہوگیا اور تلافی کے لئے اس نے حکم دیا کہ اس کی قبر پر لکھ دیا جائے کہ کوئی شخص کسی دشمن کی موت پر خوش نہ ہو کیونکہ وہ خود بھی زیادہ دن موت کے ہاتھوں سے بچ نہیں سکے گا
اس کی یہ بات سن کر ایک خداشناس آدمی کو رونا آگیا اور وہ کہنے لگا
’’اے خدا! اگر تونے اس کی بخشش نہ کی جس کی حالتِ زار پر دشمن بھی روپڑا تو تیری رحمت پر بڑا تعجب ہوگا‘‘
ہمارا جسم بھی کسی دن ایسا ہوجائے گا کہ اسے دیکھ کر دشمنوں کو بھی رحم آجائے گا
دو دن کی زندگی ہے، کوئی نہیں جانتا کہ موت کب آجائے، اس لئے اس زندگی میں کسی چیز پر غرور و تکبر نہیں کرنا چاہیئے
دو شخص آپس کی مخالفت میں اس حد تک پہنچے ہوئے تھے کہ جیسے چیتے ایک دوسرے پر حملہ کرنے کی سوچتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کے روادار نہ تھے اور ایک دوسرے کی نظروں سےبچنے کے لئے انہیں آسمان تلے جگہ نہ ملتی تھی۔ ان میں سے ایک شخص کا انتقال ہوگیا، اس کی زندگی کا پیمانہ چھلک گیا۔ اس کو موت پر دوسرے کو بہت خوشی ہوئی۔
کافی عرصے بعد دوسرا شخص پہلے کی قبر کے پاس سے گزرا تو اس نے دیکھا کہ جس متکبر کے مکان پر سونے کی پالش ہوئی تھی آج اس کی قبر مٹی سے لپی ہوئی تھی۔ غصے میں آکر اس نے مرے ہوئے دشمن کی قبر کا تختہ اکھاڑ ڈالا، دیکھا تو تاج پہننے والا سر ایک گڑھے میں پڑا ہواتھا۔ اس کی خوبصورت آنکھوں میں مٹی بھری ہوئی تھی وہ قبرکی جیل میں قید ہوچکا تھا اور اس کے جسم کو کیڑے مکوڑے کھا رہے تھے، اس کا موٹا تازہ جسم پہلی رات کےچاند کی طرح دبلا ہوچکا تھااور اس کا سر و قد تنکے کی طرح باریک ہوگیا تھا۔ اس کے پنجے اور ہتھیلی کے جوڑ بالکل علیحدہ ہوچکے تھے۔
یہ حالتِ زار دیکھ کر اسکا دل بھر آیا اور وہ رونے لگا، یہاں تک کہ اس کے رونے سے قبرکی مٹی تر ہوگئی ،وہ اپنے کرتوتوں پر شرمندہ ہوگیا اور تلافی کے لئے اس نے حکم دیا کہ اس کی قبر پر لکھ دیا جائے کہ کوئی شخص کسی دشمن کی موت پر خوش نہ ہو کیونکہ وہ خود بھی زیادہ دن موت کے ہاتھوں سے بچ نہیں سکے گا
اس کی یہ بات سن کر ایک خداشناس آدمی کو رونا آگیا اور وہ کہنے لگا
’’اے خدا! اگر تونے اس کی بخشش نہ کی جس کی حالتِ زار پر دشمن بھی روپڑا تو تیری رحمت پر بڑا تعجب ہوگا‘‘
ہمارا جسم بھی کسی دن ایسا ہوجائے گا کہ اسے دیکھ کر دشمنوں کو بھی رحم آجائے گا
دو دن کی زندگی ہے، کوئی نہیں جانتا کہ موت کب آجائے، اس لئے اس زندگی میں کسی چیز پر غرور و تکبر نہیں کرنا چاہیئے