غریب در در بھٹک رہے ہیں وطن کے جواد سو رہے ہیں

غزل

غریب در در بھٹک رہے ہیں وطن کے جواد سو رہے ہیں
وطن کے آقا وطن کے داتا پڑی ہے افتاد سو رہے ہیں

یہ طفل مکتب نجانے کب سے یونہی پریشاں کھڑے ہوئے ہیں
ابھی تو مکتب کھلا نہیں ہے ابھی تو استاد سو رہے ہیں

ہجوم اے نا مراد لوگو ! لگا ہے کیسا مجھے بتائو
ابھی تو مقتل سجا نہیں ہے ابھی تو جلاد سو رہے ہیں

مری کتاب حیات کو تم ابھی نہ پڑھنا کہ خام ہے یہ
ابھی تو اس پر ہے نقد باقی ابھی تو نقاد سو رہے ہیں

ہر ایک وحشی کھلا ہوا ہے نہیں ہے کوئی جکڑنے والا
ابھی تو پھندے لگے نہیں ہیں ابھی تو صیاد سو رہے ہیں

یہاں پہ آکر نہ شور کرنا یہاں پہ ماضی ہے دفن اپنا
یہاں پہ اسلاف کی ہیں قبریں یہاں پہ اجداد سو رہے ہیں

عجب سیاست مرے وطن کی عجیب حالت ہے اس چمن کی
یہاں پہ فرعون کی حکومت یہاں پہ شداد سو رہے ہیں

یہ سود پیشہ زیاں کے مارے انہیں محبت کی کیا خبر ہے
یہاں کے مجنوں صنم گزیدہ یہاں کے فرہاد سو رہے ہیں

جو مسندوں کی طلب میں گرداں ہوس کے مارے ہوئے پریشاں
جو حق کے رستے میں تھے رکاوٹ وہ ہوکے برباد سو رہے ہیں

مرے وطن کی عدالتوں میں نہیں ہے انصاف کی رسائی
ہر ایک مظلوم جاگتا ہے جو سن لیں فریاد سو رہے ہیں

وہ خواب راہوں کے ہیں مسافر انہیں حقیقت سے کیا ہے مطلب
سبھی تجدد پسند یاں کے برائے ایجاد سو رہے ہیں

حسیب کیوں آ گئے ہو مسجد عبادتوں کا یہ شوق کیوں ہے
ابھی تو منبر لگا نہیں ہے ابھی تو سجاد سو رہے ہیں

حسیب احمد حسیب
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب حسیب بھائی ! کیا کہنے!

یہ طفل مکتب نجانے کب سے یونہی پریشاں کھڑے ہوئے ہیں
ابھی تو مکتب کھلا نہیں ہے ابھی تو استاد سو رہے ہیں

اچھا کہا ہے ! سلامت رہیں !
 
بہت عمدہ. لاجواب حسیب بھائی.
غزل

غریب در در بھٹک رہے ہیں وطن کے جواد سو رہے ہیں
وطن کے آقا وطن کے داتا پڑی ہے افتاد سو رہے ہیں

یہ طفل مکتب نجانے کب سے یونہی پریشاں کھڑے ہوئے ہیں
ابھی تو مکتب کھلا نہیں ہے ابھی تو استاد سو رہے ہیں

ہجوم اے نا مراد لوگو ! لگا ہے کیسا مجھے بتائو
ابھی تو مقتل سجا نہیں ہے ابھی تو جلاد سو رہے ہیں

مری کتاب حیات کو تم ابھی نہ پڑھنا کہ خام ہے یہ
ابھی تو اس پر ہے نقد باقی ابھی تو نقاد سو رہے ہیں

ہر ایک وحشی کھلا ہوا ہے نہیں ہے کوئی جکڑنے والا
ابھی تو پھندے لگے نہیں ہیں ابھی تو صیاد سو رہے ہیں

یہاں پہ آکر نہ شور کرنا یہاں پہ ماضی ہے دفن اپنا
یہاں پہ اسلاف کی ہیں قبریں یہاں پہ اجداد سو رہے ہیں

عجب سیاست مرے وطن کی عجیب حالت ہے اس چمن کی
یہاں پہ فرعون کی حکومت یہاں پہ شداد سو رہے ہیں

یہ سود پیشہ زیاں کے مارے انہیں محبت کی کیا خبر ہے
یہاں کے مجنوں صنم گزیدہ یہاں کے فرہاد سو رہے ہیں

جو مسندوں کی طلب میں گرداں ہوس کے مارے ہوئے پریشاں
جو حق کے رستے میں تھے رکاوٹ وہ ہوکے برباد سو رہے ہیں

مرے وطن کی عدالتوں میں نہیں ہے انصاف کی رسائی
ہر ایک مظلوم جاگتا ہے جو سن لیں فریاد سو رہے ہیں

وہ خواب راہوں کے ہیں مسافر انہیں حقیقت سے کیا ہے مطلب
سبھی تجدد پسند یاں کے برائے ایجاد سو رہے ہیں

حسیب کیوں آ گئے ہو مسجد عبادتوں کا یہ شوق کیوں ہے
ابھی تو منبر لگا نہیں ہے ابھی تو سجاد سو رہے ہیں

حسیب احمد حسیب
 

عاطف ملک

محفلین
غزل

غریب در در بھٹک رہے ہیں وطن کے جواد سو رہے ہیں
وطن کے آقا وطن کے داتا پڑی ہے افتاد سو رہے ہیں

یہ طفل مکتب نجانے کب سے یونہی پریشاں کھڑے ہوئے ہیں
ابھی تو مکتب کھلا نہیں ہے ابھی تو استاد سو رہے ہیں

ہجوم اے نا مراد لوگو ! لگا ہے کیسا مجھے بتائو
ابھی تو مقتل سجا نہیں ہے ابھی تو جلاد سو رہے ہیں

مری کتاب حیات کو تم ابھی نہ پڑھنا کہ خام ہے یہ
ابھی تو اس پر ہے نقد باقی ابھی تو نقاد سو رہے ہیں

ہر ایک وحشی کھلا ہوا ہے نہیں ہے کوئی جکڑنے والا
ابھی تو پھندے لگے نہیں ہیں ابھی تو صیاد سو رہے ہیں

یہاں پہ آکر نہ شور کرنا یہاں پہ ماضی ہے دفن اپنا
یہاں پہ اسلاف کی ہیں قبریں یہاں پہ اجداد سو رہے ہیں

عجب سیاست مرے وطن کی عجیب حالت ہے اس چمن کی
یہاں پہ فرعون کی حکومت یہاں پہ شداد سو رہے ہیں

یہ سود پیشہ زیاں کے مارے انہیں محبت کی کیا خبر ہے
یہاں کے مجنوں صنم گزیدہ یہاں کے فرہاد سو رہے ہیں

جو مسندوں کی طلب میں گرداں ہوس کے مارے ہوئے پریشاں
جو حق کے رستے میں تھے رکاوٹ وہ ہوکے برباد سو رہے ہیں

مرے وطن کی عدالتوں میں نہیں ہے انصاف کی رسائی
ہر ایک مظلوم جاگتا ہے جو سن لیں فریاد سو رہے ہیں

وہ خواب راہوں کے ہیں مسافر انہیں حقیقت سے کیا ہے مطلب
سبھی تجدد پسند یاں کے برائے ایجاد سو رہے ہیں

حسیب کیوں آ گئے ہو مسجد عبادتوں کا یہ شوق کیوں ہے
ابھی تو منبر لگا نہیں ہے ابھی تو سجاد سو رہے ہیں

حسیب احمد حسیب
کمال ہے!
بہت خوب جناب!
 
Top