احمد وصال
محفلین
ترے وصال میں مٹنے کا خوف طاری ہے
بدن کے ملبے میں اپنی تلاش جاری ہے
مکیں ہوں گاؤں کا ، دیکھو کہ میری گھٹّی میں
مرے عزیز! روایت کی پاسداری ہے
بنے ہیں لوگ سب انجان ایک دوجے سے
نہی ہے کچھ بھی ، امارت کی تابکاری ہے
یقین ہے کہ محبت میں سرخرو ہوں گے
ہمارے پاس دعاؤں کی ریزگاری ہے
دکھائی آنکھیں، ذرا مسکرائی ، شرمائی
محال ہے مرا بچنا کہ وار کاری ہے
بقا کے خاص عناصر ،یہ چار، ذیل میں ہیں
وفا ، خلوص، محبت ہے، انکساری ہے
بنایا حضرتِ انساں کو کیا سے کیا اس نے
یہ بھوک دنیا کا سب سے بڑا مداری ہے
وصال روگ یہ احساس کا لگا جس کو
پھر اس نے درد میں ہی زندگی گزاری ہے
احمد وصال
بدن کے ملبے میں اپنی تلاش جاری ہے
مکیں ہوں گاؤں کا ، دیکھو کہ میری گھٹّی میں
مرے عزیز! روایت کی پاسداری ہے
بنے ہیں لوگ سب انجان ایک دوجے سے
نہی ہے کچھ بھی ، امارت کی تابکاری ہے
یقین ہے کہ محبت میں سرخرو ہوں گے
ہمارے پاس دعاؤں کی ریزگاری ہے
دکھائی آنکھیں، ذرا مسکرائی ، شرمائی
محال ہے مرا بچنا کہ وار کاری ہے
بقا کے خاص عناصر ،یہ چار، ذیل میں ہیں
وفا ، خلوص، محبت ہے، انکساری ہے
بنایا حضرتِ انساں کو کیا سے کیا اس نے
یہ بھوک دنیا کا سب سے بڑا مداری ہے
وصال روگ یہ احساس کا لگا جس کو
پھر اس نے درد میں ہی زندگی گزاری ہے
احمد وصال
آخری تدوین: