محمد اظہر نذیر
محفلین
گود میں ماضی کی جانے کب زمانے جا بسے
کب حقیقت کھل گئی اور کب فسانے جا بسے
فکر سے آزاد تھے اور گیت سنتے تھے سبھی
یار غم کی تان سُر میں سب ترانے جا بسے
دوستوں میں تھی محبت، حرص سے بیگانگی
بھول پن نکلا بدن سے، اور سیانے جا بسے
بستیوں کی جیسے بنیادیں تھیں پانی پر دھری
اک جگہ چھوڑی تو دوجی سب گھرانے جا بسے
نت نئے چہرے نظر آئیں شہر میں رات دن
دور پردیسوں میں جب سے سب پرانے جا بسے
نیند سے اُٹھتا ہے اظہر، خوف سے ڈرتا ہوا
خواب آتے ہیں بھانک، اور سہانے جا بسے
کب حقیقت کھل گئی اور کب فسانے جا بسے
فکر سے آزاد تھے اور گیت سنتے تھے سبھی
یار غم کی تان سُر میں سب ترانے جا بسے
دوستوں میں تھی محبت، حرص سے بیگانگی
بھول پن نکلا بدن سے، اور سیانے جا بسے
بستیوں کی جیسے بنیادیں تھیں پانی پر دھری
اک جگہ چھوڑی تو دوجی سب گھرانے جا بسے
نت نئے چہرے نظر آئیں شہر میں رات دن
دور پردیسوں میں جب سے سب پرانے جا بسے
نیند سے اُٹھتا ہے اظہر، خوف سے ڈرتا ہوا
خواب آتے ہیں بھانک، اور سہانے جا بسے