طارق شاہ
محفلین
غزلِ
باقِرزیدی
باقِرزیدی
جُزحُسن کسی شے کی تمنّا نہیں کرتے
ہم اہلِ نظر اور تماشہ نہیں کرتے
ہر کام میں ہم ہاتھ بھی ڈالا نہیں کرتے
کرنے پہ جو آجائیں، تو کیا نہیں کرتے
وہ دستِ طلب کیسے بڑھاتے کہیں اپنا
جو قرض تو دیتے ہیں تقاضہ نہیں کرتے
ہے شہرمیں وہ خوف، کہ لوٹ آتے ہیں دن سے
پھر گھر سے نکلنے کا ارادہ نہیں کرتے
کیا دستِ شفا ہے کہ بڑھاتا ہے مَرَض اور
تم خُوب مسِیحا ہو کہ اچھا نہیں کرتے
دیدار طلب اپنی نگاہیں بھی ہیں لیکن
مُوسیٰ کی طرح عرضِ تمنّا نہیں کرتے
ایسے بھی ہیں کچھ دوست، کہ آتے نہیں برسوں
آجائیں تو، جانے کا ارادہ نہیں کرتے
یہ حُسن نظر ہی کا تقاضہ ہے کہ باقِر
آئینہ کبھی شوق سے دیکھا نہیں کرتے
ہم اہلِ نظر اور تماشہ نہیں کرتے
ہر کام میں ہم ہاتھ بھی ڈالا نہیں کرتے
کرنے پہ جو آجائیں، تو کیا نہیں کرتے
وہ دستِ طلب کیسے بڑھاتے کہیں اپنا
جو قرض تو دیتے ہیں تقاضہ نہیں کرتے
ہے شہرمیں وہ خوف، کہ لوٹ آتے ہیں دن سے
پھر گھر سے نکلنے کا ارادہ نہیں کرتے
کیا دستِ شفا ہے کہ بڑھاتا ہے مَرَض اور
تم خُوب مسِیحا ہو کہ اچھا نہیں کرتے
دیدار طلب اپنی نگاہیں بھی ہیں لیکن
مُوسیٰ کی طرح عرضِ تمنّا نہیں کرتے
ایسے بھی ہیں کچھ دوست، کہ آتے نہیں برسوں
آجائیں تو، جانے کا ارادہ نہیں کرتے
یہ حُسن نظر ہی کا تقاضہ ہے کہ باقِر
آئینہ کبھی شوق سے دیکھا نہیں کرتے
باقِرزیدی