طارق شاہ
محفلین
غزلِ
شفیق خلش
شفیق خلش
ابھی کچھ ہیں مِلنے کو باقی سزائیں
وہ گِنتے ہیں بیٹھے ہماری خطائیں
نہیں آتے پل کو جو پہروں یہاں تھے
اثر کھو چکی ہیں سبھی اِلتجائیں
زمانہ ہُوا چھوڑ آئے وطن میں
نظر ڈُھونڈتی ہے اب اُن کی ادائیں
مِرے خونِ ناحق پہ اب وہ تُلے ہیں
جو تھکتے نہ تھے لے کے میری بَلائیں
خَلِش تم زمیں کے، وہ ہیں آسمان پر
بھلا کیسے سُنتے تمہاری صدائیں
شفیق خلش