محمد ریحان قریشی
محفلین
اپنی تو بلندی ہے ثریا سے بھی بڑھ کر
نایاب ہیں ہم دہر میں عنقا سے بھی بڑھ کر
نظروں نے تری کتنے ہی عاقل کیے مجنوں
تیرا تو ہے اعجاز مسیحا سے بھی بڑھ کر
تسبیح و نماز آہ کے آگے بھی ہیں کچھ شے
ہے راہِ وفا منزلِ تقویٰ سے بھی بڑھ کر
یہ وہم ہمارا ہے کہ ہم ہوگئے آزاد
ہیں اہلِ حرم اہلِ کلیسا سے بھی بڑھ کر
دریا بھی پیے تب بھی اثر کچھ نہ ہوا ہے
اب چاہیے کچھ بادہ و صہبا سے بھی بڑھ کر
زندہ جو ہوئے عشق سے موت ان کو نہ آئی
ہے ان کا ذکر قیصر و کسریٰ سے بھی بڑھ کر
یہ قصہِ ریحان سنو غورسے تم سب
یہ داستاں ہے مجنوں و لیلیٰ سے بھی بڑھ کر
نایاب ہیں ہم دہر میں عنقا سے بھی بڑھ کر
نظروں نے تری کتنے ہی عاقل کیے مجنوں
تیرا تو ہے اعجاز مسیحا سے بھی بڑھ کر
تسبیح و نماز آہ کے آگے بھی ہیں کچھ شے
ہے راہِ وفا منزلِ تقویٰ سے بھی بڑھ کر
یہ وہم ہمارا ہے کہ ہم ہوگئے آزاد
ہیں اہلِ حرم اہلِ کلیسا سے بھی بڑھ کر
دریا بھی پیے تب بھی اثر کچھ نہ ہوا ہے
اب چاہیے کچھ بادہ و صہبا سے بھی بڑھ کر
زندہ جو ہوئے عشق سے موت ان کو نہ آئی
ہے ان کا ذکر قیصر و کسریٰ سے بھی بڑھ کر
یہ قصہِ ریحان سنو غورسے تم سب
یہ داستاں ہے مجنوں و لیلیٰ سے بھی بڑھ کر
آخری تدوین: