اتفاق کی بات ہے کہ میری نظر سے بھی یہ دھاگا نہیں گزرا اور ابھی وارث صاحب کے مراسلے کے توسط سے اسے دیکھا ہے۔ عربی تو نہیں جانتا مگر محض اندازے سے اعراب ڈال کر تقطیع کی کوشش کرتا ہوں۔
اَلحَمدُ لِلمُتَوَحِّدً
بِجَلَالِہِ المُتَفَرِّدً
وَ صَلٰوتِہ̩ دَوَماً عَلٰی
خَیرُ الاَنَامِ مُحَمَّدً
اس قطعہ کی بحر "کامل مربع سالم" ہے اور یہ بعینہ̩ وہی وزن ہے جو حضرت شیخ سعدی کے مشہور زمانہ نعتیہ قطعہ "بلغ العلیٰ بکمالہ̩" کا ہے۔
بحر "کامل" رکن 'متفاعلن' کی تکرار ہے جو اولاً عربی سے مختص تھی لیکن بے شمار اردو شعرا نے بھی اسے برتا ہے مگر اردو میں عموماً مثمن ہی مستعمل ہے اور گو "مربع" شکل میں عربی شعر تک ہی محدود ہے لیکن کچھ اردو و فارسی شعرا نے 'فن کا مظاہرہ' کرنے کی غرض سے مربع بھی استعمال کی ہے۔
اس قطعہ کی تقطیع کچھ یوں ہو گی:
اَلحَمدُلِل ۔ مُتَوَح حِدَن
مُستَفعِلُن ۔ مُتَفَاعِلُن
بِجَلَالِہِل ۔ مُتَفَر رِدَن
مُتَفَاعِلُن ۔ مُتَفَاعِلُن
وَ صَلا تِہی ۔ دَوَمَن عَلا
مُتَفَاعِلُن ۔ مُتَفَاعِلُن
خَیرُل اَنَا ۔ مِ مُحَم مَدَن
مُستَفعِلُن ۔ مُتَفَاعِلُن
عموماً یہ بحر سالم ہی استعمال ہوتی ہے یعنی "متفاعلن" کے رکن پر کسی زحاف کے استعمال یا اس میں کسی تبدیلی کے بغیر لیکن متفاعلن کے رکن پر ایک زحاف "اضمار" کے استعمال سے دوسرا حرف یعنی ت ساکن بھی کیا جا سکتا ہے اور یوں "مضمر" شکل وجود پاتی ہے۔
اس بحر میں سالم اور مضمر ارکان کا اجتماع بھی جائز ہے جیسا کہ مذکورہ قطعہ کے پہلے اور چوتھے مصرعوں میں ایک ایک بار متفاعلن کو مضمر شکل میں یعنی مستفعلن برتا گیا ہے۔