غزل۔برفاب رُت میں ہم ہی نہیں تھے جمے ہوئے: از۔ نویدظفرکیانی

برفاب رُت میں ہم ہی نہیں تھے جمے ہوئے
انگارے شہر بھر کے وہیں تھے جمے ہوئے

نکلا نہیں غنیم کسی مورچے سے بھی
اپنے مقابلے میں ہمیں تھے جمے ہوئے

تاریخ کہہ رہی ہے لڑی ہی نہیں گئی
وہ جنگ جس میں اہلِ یقیں تھے جمے ہوئے

بارش نہیں تھی ہجر میں روئے تھے رات بھر
آنسُو نہیں تھے لعلِ یمیں تھے جمے ہوئے

کیوں ہم کو اپنے چاند ستاروں کی کھوج تھی
جب آسمان زیرِ زمیں تھے جمے ہوئے
نویدظفرکیانی
 

فاتح

لائبریرین
واہ کیا خوبصورت غزل ہے۔ یہ دو اشعار تو بہت پسند آئے
نکلا نہیں غنیم کسی مورچے سے بھی
اپنے مقابلے میں ہمیں تھے جمے ہوئے

تاریخ کہہ رہی ہے لڑی ہی نہیں گئی
وہ جنگ جس میں اہلِ یقیں تھے جمے ہوئے​

لعلِ یمیں میں یمین بمعنی یمن پہلی مرتبہ دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ قبل ازیں یمین سمت یا جانب کے لیے (یمین و یسار ۔ دائیں اور بائیں) سنا تھا۔ کیا یمن کے مترادف کے طور پر یمین استعمال کرنا درست ہے؟
 
Top