منذر رضا
محفلین
السلام علیکم
ایک غزل پیشِ خدمت ہے:
کھلائے گل بہاراں کی ہوا نے کیسے کیسے
ملے کچھ سینہ چاکی کے بہانے کیسے کیسے
سرِِ مقتل میں رقصاں پا بہ جولاں جان دے دی
لہو نے بسکہ گائے تھے ترانے کیسے کیسے
گدا گزرا، مصیبت ائی، تو پھر سب نے جانا
بچا رکھا تھا بستی کو دعا نے کیسے کیسے
لبوں پر اک مچلتی موج نے آ کر بچائے
یمِ دل میں غمِ جاں کے خزانے کیسے کیسے
بہ چشمِ تر خدا سے کچھ دعائیں ہی تو کی تھیں
ولے خلقت بنا بیٹھی فسانے کیسے کیسے
غمِ دنیا کی پت جھڑ، یادِ خوش رو کی بہاریں
دیارِ دل کے موسم ہیں سہانے کیسے کیسے
بچایا زندگی کے دشت میں مہرِ فنا سے
سیہ زلفوں کی یادوں کی ردا نے کیسے کیسے
ہمارے ہاتھ خالی تھے، سو خالی کاسہ دے کر
زبس بہلایا ہے اہلِ سخا نے کیسے کیسے
وہ دل کے آئنے پر ایک چہرے کا ابھرنا
وہ خال و خد سرِ قرطاس آنے کیسے کیسے
ایک غزل پیشِ خدمت ہے:
کھلائے گل بہاراں کی ہوا نے کیسے کیسے
ملے کچھ سینہ چاکی کے بہانے کیسے کیسے
سرِِ مقتل میں رقصاں پا بہ جولاں جان دے دی
لہو نے بسکہ گائے تھے ترانے کیسے کیسے
گدا گزرا، مصیبت ائی، تو پھر سب نے جانا
بچا رکھا تھا بستی کو دعا نے کیسے کیسے
لبوں پر اک مچلتی موج نے آ کر بچائے
یمِ دل میں غمِ جاں کے خزانے کیسے کیسے
بہ چشمِ تر خدا سے کچھ دعائیں ہی تو کی تھیں
ولے خلقت بنا بیٹھی فسانے کیسے کیسے
غمِ دنیا کی پت جھڑ، یادِ خوش رو کی بہاریں
دیارِ دل کے موسم ہیں سہانے کیسے کیسے
بچایا زندگی کے دشت میں مہرِ فنا سے
سیہ زلفوں کی یادوں کی ردا نے کیسے کیسے
ہمارے ہاتھ خالی تھے، سو خالی کاسہ دے کر
زبس بہلایا ہے اہلِ سخا نے کیسے کیسے
وہ دل کے آئنے پر ایک چہرے کا ابھرنا
وہ خال و خد سرِ قرطاس آنے کیسے کیسے