اریب آغا ناشناس
محفلین
پیش ازیں کہ میں راہیؔ صاحب کی غزل کی اشتراک گذاری کروں، ان کا مختصر سا تعارف کرادوں۔
کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے شجاعت علی راہیؔ صاحب،جو کہ میرے انتہائی عزیز رشتہ دار ہیں، اردو اور انگریزی زبان کے بسیار زبردست شاعر ہیں۔آپ 1945 کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔آپ کا اصلی نام شجاعت علی شاہ نقوی ہے، جبکہ تخلص راہیؔ ہے۔مادری زبان فارسی ہے۔آپ نے ڈھاکہ یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کیا۔۔ملازمت کے سلسلے میں انگریزی زبان کے مدرس رہے اور ازاں پس لندن اور جدہ میں ملازمت کی۔بعد ازاں آپ کئی کالجوں کے پرنسپل بھی رہے۔پاکستان ٹیلی وژن کے پروڈیوسر بھی رہے اور پھر کوہاٹ یونیورسٹی میں شعبہء انگریزی کے صدر رہے۔
آپ کی طبع شدہ کتابوں میں پانچ شعری مجموعے ہیں جن میں "چراغ گل نہ کرو"(جسے عبدالرب نشتر ایوارڈ حاصل ہوا)، "نور علیٰ نور"( جو کہ مذہبی شاعری پر مشتمل ہے)،" ہجرتِ مسلسل"، "برف کی رگیں"( جسے اباسین ایوارڈ کا شرف حاصل ہوا) اور "پھول کِھلے یا نہ کِھلے" شامل ہیں۔آپ نے ہندکو میں بھی چند نظمیں تحریر کیں ہیں۔اور اسی طرح فارسی میں بھی چند غزلیں سپردِ قلم کیں
علاوہ ازیں، آپ نے بچوں کے لئے بہت سے ناول اور شعری مجموعے تحریر کیے ہیں۔انگریزی میں انہوں نے The State of Bonded Labor in Pakistan تحریر کی، جو پاکستان میں مزدوروں کے تلخ حال زار پر لکھی گئی ہے۔۔۔
راہی صاحب نے شعرگوئی کی ابتداء جماعتِ ہشتم سے کی تھی۔وہ بنیادی طور پر اردو کے شاعر ہیں، البتہ ابتداء میں انہوں نے فارسی میں بھی غزل سرائی کی تھی، لیکن جیسا کہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے، برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد بالعموم اور پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد بالخصوص زبانِ شیریں گفتار فارسی برصغیر میں اپنے انحطاط کے بدترین سطح پر آئی اور پھر ملک بدر ہوگئی۔۔ازاں پس فارسی کے ذوق رکھنے والوں میں واضح کمی آگئی۔۔بر بنائے وجوہاتِ ہٰذا، راہی صاحب کو فارسی شعرگوئی ترک کرنا پڑی۔
راقم الحروف، جو کہ خود فارسی زبان و ادب کا عاشقِ صادق ہے، نے چند روز قبل راہی صاحب سے تقاضا کیا کہ وہ اپنی تحریر شدہ فارسی غزلیں ارسال کریں تاکہ ہم دل دادگانِ فارسی ان گوہرہائے تابندہ سے فیض یاب ہوسکیں۔۔انہوں نے اپنی ایک کہنہ غزل پیش کی اور ازاں پس میری تحریک پر مندرجہ ذیل تازہ فارسی غزل لکھی۔۔۔انہوں نے بتایا کہ وہ 56 برس بعد فارسی میں اب غزل تحریر کررہے ہیں۔اور ساتھ ہی اس غزل کے لکھنے کے تحریک کنندہ کے طور پر میری تعریف بھی فرمائی۔۔خدا انہیں ہمیشہ تندرست و پیروز رکھے اور انہیں عمرِ دراز عطا فرمائے۔
بزمِ موجِ بحر برهم میکنم
روز و شب من چشم پرنم میکنم
روز و شب بیوجه ماتم میکنم
کارهایِ خوب خوش دارم ولی
کارهایِ خوب کم کم میکنم
پیشِ هر کس کج کلاهم، پیشِ تو
من سرِ تسلیمِ خود خم می کنم
کارهای خوب و بد در بختِ من
من بخواهم یا نخواهم، میکنم
چون غزل کاری کنم هر حرف را
نرم مثلِ آب و ریشم میکنم
ترجمہ:
آب کو میں آبِ زم زم کرتا ہوں۔تیرے درد کو اپنے درد میں ضم کرتا ہوں۔
میں رقصِ پیہم کررہا ہوں۔ موجِ بحر کی بزم کو درہم برہم کررہا ہوں
روز و شب میں اپنی چشم کو پُر نم کرتا ہوں۔روز و شب میں بےوجہ ماتم کرتا ہوں۔
کارہائے خوب مجھے بہت پسند ہیں امّا میں (یہ) کارہائے خوب کم کم ہی کرتا ہوں۔
ہر کسی کے سامنے کج کلاہ ہوں، (امّا) تیرے سامنے میں اپنا سرِ تسلیم خم کرتا ہوں۔
میری قسمت میں کارہائے خوب و بد (لکھے) ہیں۔میں چاہوں یا نہ چاہوں (وہ کارہائے خوب و بد) میں کرتا ہوں۔
جب میں غزل کاری کرتا ہوں تو ہر حرف کو آب و ریشم کی مانند نرم کرتا ہوں۔
ترجمہ کرتے ہوئے چند جگہوں میں تصحیح کرنے پر برادرم حسان خان کا از بس سپاس گزار ہوں
کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے شجاعت علی راہیؔ صاحب،جو کہ میرے انتہائی عزیز رشتہ دار ہیں، اردو اور انگریزی زبان کے بسیار زبردست شاعر ہیں۔آپ 1945 کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔آپ کا اصلی نام شجاعت علی شاہ نقوی ہے، جبکہ تخلص راہیؔ ہے۔مادری زبان فارسی ہے۔آپ نے ڈھاکہ یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کیا۔۔ملازمت کے سلسلے میں انگریزی زبان کے مدرس رہے اور ازاں پس لندن اور جدہ میں ملازمت کی۔بعد ازاں آپ کئی کالجوں کے پرنسپل بھی رہے۔پاکستان ٹیلی وژن کے پروڈیوسر بھی رہے اور پھر کوہاٹ یونیورسٹی میں شعبہء انگریزی کے صدر رہے۔
آپ کی طبع شدہ کتابوں میں پانچ شعری مجموعے ہیں جن میں "چراغ گل نہ کرو"(جسے عبدالرب نشتر ایوارڈ حاصل ہوا)، "نور علیٰ نور"( جو کہ مذہبی شاعری پر مشتمل ہے)،" ہجرتِ مسلسل"، "برف کی رگیں"( جسے اباسین ایوارڈ کا شرف حاصل ہوا) اور "پھول کِھلے یا نہ کِھلے" شامل ہیں۔آپ نے ہندکو میں بھی چند نظمیں تحریر کیں ہیں۔اور اسی طرح فارسی میں بھی چند غزلیں سپردِ قلم کیں
علاوہ ازیں، آپ نے بچوں کے لئے بہت سے ناول اور شعری مجموعے تحریر کیے ہیں۔انگریزی میں انہوں نے The State of Bonded Labor in Pakistan تحریر کی، جو پاکستان میں مزدوروں کے تلخ حال زار پر لکھی گئی ہے۔۔۔
راہی صاحب نے شعرگوئی کی ابتداء جماعتِ ہشتم سے کی تھی۔وہ بنیادی طور پر اردو کے شاعر ہیں، البتہ ابتداء میں انہوں نے فارسی میں بھی غزل سرائی کی تھی، لیکن جیسا کہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے، برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد بالعموم اور پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد بالخصوص زبانِ شیریں گفتار فارسی برصغیر میں اپنے انحطاط کے بدترین سطح پر آئی اور پھر ملک بدر ہوگئی۔۔ازاں پس فارسی کے ذوق رکھنے والوں میں واضح کمی آگئی۔۔بر بنائے وجوہاتِ ہٰذا، راہی صاحب کو فارسی شعرگوئی ترک کرنا پڑی۔
راقم الحروف، جو کہ خود فارسی زبان و ادب کا عاشقِ صادق ہے، نے چند روز قبل راہی صاحب سے تقاضا کیا کہ وہ اپنی تحریر شدہ فارسی غزلیں ارسال کریں تاکہ ہم دل دادگانِ فارسی ان گوہرہائے تابندہ سے فیض یاب ہوسکیں۔۔انہوں نے اپنی ایک کہنہ غزل پیش کی اور ازاں پس میری تحریک پر مندرجہ ذیل تازہ فارسی غزل لکھی۔۔۔انہوں نے بتایا کہ وہ 56 برس بعد فارسی میں اب غزل تحریر کررہے ہیں۔اور ساتھ ہی اس غزل کے لکھنے کے تحریک کنندہ کے طور پر میری تعریف بھی فرمائی۔۔خدا انہیں ہمیشہ تندرست و پیروز رکھے اور انہیں عمرِ دراز عطا فرمائے۔
آب را من آبِ زمزم میکنم
دردِ تو در دردِ خود ضم میکنم
می کنم، من رقص پیهم میکنمدردِ تو در دردِ خود ضم میکنم
بزمِ موجِ بحر برهم میکنم
روز و شب من چشم پرنم میکنم
روز و شب بیوجه ماتم میکنم
کارهایِ خوب خوش دارم ولی
کارهایِ خوب کم کم میکنم
پیشِ هر کس کج کلاهم، پیشِ تو
من سرِ تسلیمِ خود خم می کنم
کارهای خوب و بد در بختِ من
من بخواهم یا نخواهم، میکنم
چون غزل کاری کنم هر حرف را
نرم مثلِ آب و ریشم میکنم
ترجمہ:
آب کو میں آبِ زم زم کرتا ہوں۔تیرے درد کو اپنے درد میں ضم کرتا ہوں۔
میں رقصِ پیہم کررہا ہوں۔ موجِ بحر کی بزم کو درہم برہم کررہا ہوں
روز و شب میں اپنی چشم کو پُر نم کرتا ہوں۔روز و شب میں بےوجہ ماتم کرتا ہوں۔
کارہائے خوب مجھے بہت پسند ہیں امّا میں (یہ) کارہائے خوب کم کم ہی کرتا ہوں۔
ہر کسی کے سامنے کج کلاہ ہوں، (امّا) تیرے سامنے میں اپنا سرِ تسلیم خم کرتا ہوں۔
میری قسمت میں کارہائے خوب و بد (لکھے) ہیں۔میں چاہوں یا نہ چاہوں (وہ کارہائے خوب و بد) میں کرتا ہوں۔
جب میں غزل کاری کرتا ہوں تو ہر حرف کو آب و ریشم کی مانند نرم کرتا ہوں۔
ترجمہ کرتے ہوئے چند جگہوں میں تصحیح کرنے پر برادرم حسان خان کا از بس سپاس گزار ہوں
آخری تدوین: