غزل۔۔۔ اتنا شرمندہ ہوں اس دور کا انساں ہو کر ۔۔۔ میری اور والد صاحب کی مشترکہ کاوش

متلاشی

محفلین
عافیہ چیختی ہو گی پسِ زنداں ہو کر
بیٹیاں رہ گئیں بے دامن و داماں ہو کر

لفظ نکلے ہیں مرے نطق سے نالاں ہو کر
اتنا شرمندہ ہوں اس دور کا انساں ہو کر

دن نکلتا ہے نئے دردکا ساماں ہو کر
شام آتی ہے تو شامِ غریباں ہو کر

کیا ستم ہے کوئی آہ رسا نہیں ہوتی
لوٹ آتی ہے صدا خوابِ پریشاں ہو کر

کس طرح آہ مری آج فلک تک پہنچے
رہ گیا شہر میرا شہرِ خموشاں ہو کر

آہ غافل ذرا پہچان قدر آپ تو اپنی
نہیں پستی تجھے شایاں ارے ذیشاںؔ ہو کر

(والد گرامی اور میری ایک مشترکہ کاوش )​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یہ مصرعے بحر سے خارج ہیں۔

شام آتی ہے تو شامِ غریباں ہو کر

کیا ستم ہے کوئی آہ رسا نہیں ہوتی

آہ غافل ذرا پہچان قدر آپ تو اپنی
 

آصف اثر

معطل
یہ مصرعے بحر سے خارج ہیں۔

شام آتی ہے تو شامِ غریباں ہو کر

کیا ستم ہے کوئی آہ رسا نہیں ہوتی

آہ غافل ذرا پہچان قدر آپ تو اپنی
میرے خیال میں یہ مصرعے کچھ یوں ہونے چاہیے:

۱: شام آتی ہے تو اِک شامِ غریباں ہوکر
۲:کیا ستم ہے نہیں ہوتی بھی کوئی آہ رسا
۳: آہ غافل ذرا پہچان قدر آپ اپنی
یا
آہ غافل ذرا پہچان قدر تو اپنی۔۔۔

باقی کاوش تو لاجواب ہے۔۔۔ماشاء اللہ۔۔۔
 

آصف اثر

معطل
ایک بات اور کہ تصحیح کے بعد ہم اسے ”مہر نستعلیق“ میں جلوہ گر دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔۔
شاید کسی کو جَلا دے۔۔۔شاید کسی کو جِلا دے۔۔۔
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
لفظ نکلے ہیں مرے نطق سے نالاں ہو کر
اتنا شرمندہ ہوں اس دور کا انساں ہو کر
اجی کیا خوب غزل کہہ دی جنابِ ذیشاں
حرف بہ حرف پڑھی ہم نے یہ حیراں ہو کر

بہت عمدہ جناب۔ خوش رہیں۔ اللہ کرے حسنِ قلم زیادہ
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
میرے خیال میں یہ مصرعے کچھ یوں ہونے چاہیے:

۱: شام آتی ہے تو اِک شامِ غریباں ہوکر
۲:کیا ستم ہے نہیں ہوتی بھی کوئی آہ رسا
۳: آہ غافل ذرا پہچان قدر آپ اپنی
یا
آہ غافل ذرا پہچان قدر تو اپنی۔۔۔

باقی کاوش تو لاجواب ہے۔۔۔ ماشاء اللہ۔۔۔
قدر کو بدر کے وزن پر باندھا جائے گا ۔
شام بھی آتی ہے تو شامِ غریباں ہوکر
کیا ستم ہے کہ نہیں ہوتی کوئی آہ رسا
قدر کو اپنی تو پہچان ذرا ا ےغافل
 

نور وجدان

لائبریرین
عافیہ چیختی ہو گی پسِ زنداں ہو کر
بیٹیاں رہ گئیں بے دامن و داماں ہو کر

لفظ نکلے ہیں مرے نطق سے نالاں ہو کر
اتنا شرمندہ ہوں اس دور کا انساں ہو کر

دن نکلتا ہے نئے دردکا ساماں ہو کر
شام آتی ہے تو شامِ غریباں ہو کر

کیا ستم ہے کوئی آہ رسا نہیں ہوتی
لوٹ آتی ہے صدا خوابِ پریشاں ہو کر

کس طرح آہ مری آج فلک تک پہنچے
رہ گیا شہر میرا شہرِ خموشاں ہو کر

آہ غافل ذرا پہچان قدر آپ تو اپنی
نہیں پستی تجھے شایاں ارے ذیشاںؔ ہو کر

(والد گرامی اور میری ایک مشترکہ کاوش )​

ماشاء اللہ ! آپ کے خیالات کی بلندی کو میرا سلام ۔۔۔
بہت اچھی ہے
 
Top