غزل۔ اس سے پیار کیوں کرتا؟

استاذِ من اعجاز اختر صاحب!
خصوصی توجہ! ;)

غزل برائے اصلاح

ستم کا اس کے بھلا میں شمار کیوں کرتا؟
یہ آنکھ اس کے لیے اشک بار کیوں کرتا؟

مجھے خبر تھی کہ آنکھوں میں اس کی، نفرت ہے
میں اپنا چہرہ سوئے روئے یار کیوں کرتا؟

خزاں کی رُت ہی لکھی ہے مِرے مقدر میں
تو میں تمنا تِری، اے بہار! کیوں کرتا؟

مِرا ہی ظرف تھا سہتا رہا ستم اس کے
جو ہوتا اور کوئی، اس سے پیار کیوں کرتا؟

وہ ہر قدم پہ مجھے تنہا چھوڑ دیتا تھا
تو ایسے شخص پہ میں اعتبار کیوں کرتا؟

نہ تھا گوارا اسے کہ میں نام لوں اس کا
میں اس کا تذکرہ لیل و نہار کیوں کرتا؟

اسے جدائی خوشی سے قبول تھی عمار!
میں ساتھ رہنے کی منت ہزار کیوں کرتا؟​

17 ستمبر 2007ء

(وارث بھائی کا مشورہ تھا کہ اپنی شاعری اصلاح والے زمرے کے بجائے "اپنی شاعری" کے زمرے میں تحریر کروں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ابھی میں اس درجہ تک پہنچا ہوں۔۔۔۔ اس لیے وارث بھائی سے معذرت:) )
 

الف عین

لائبریرین
عمار۔ اس کی اصلاح بھول گیا تھا۔ آج خیال آیا تو مشورے دے رہا ہوں

پہلی بات۔ ویسے ردیف ’کیوں کرتا‘ بھی ہے تو درست ہی۔۔ لیکن اگر اسے ’کیا کرتا‘ کر دیا جائے تو کچھ دوسرا ہی اثر ہوتا ہے۔ کیا خیال ہے۔
ستم کا اس کے بھلا میں شمار کیا کرتا
یہ آنکھ اس کے لیے اشک بار کیاکرتا
کا اثر کچھ اور ہی لگتا ہے۔۔ہے نا؟

دوسرا شعر:
خزاں کی رُت ہی لکھی ہے مِرے مقدر میں
کی جگہ اسے اگر صیغہ ماضی کر دیا جائے تو اثر اندازی بڑھ جاتی ہے:
خزاں کی رُت ہی لکھی تھی مِرے مقدر میں

تمھارا شعر:
وہ ہر قدم پہ مجھے تنہا چھوڑ دیتا تھا
تو ایسے شخص پہ میں اعتبار کیوں کرتا؟

ہر قدم پر تنہا کس طرح چھوڑا جاتا ہے؟
یوں ترمیم کریں تو۔۔۔۔
جو بار بار مجھے تنہا چھوڑ جاتا تھا
اک ایسے شخص پہ میں اعتبار کیا کرتا
اگرچہ تنہا کا الف اب بھی گر رہا ہے، لیکن اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔

اب یہ شعر دیکھو:
نہ تھا گوارا اسے کہ میں نام لوں اس کا
میں اس کا تذکرہ لیل و نہار کیوں کرتا؟

یہاں ’‘کہ‘ مکمل ’کے‘ کے طور پر وزن میں آتا ہے جو عروض کے مطابق میں درست تو نہیں مانتا۔
اس پورے شعر کا یہ روپ بہتر لگ رہا ہے:

نہ تھا گوارا جسے نام بھی میں لوں اس کا
اسی کا تذکرہ لیل و نہار کیا کرتا

کیا خیال ہے وارث تمھارا بھی۔
 
بہت خوب۔ شکریہ شکریہ! :)
اس اصلاح سے ایک دوسری بات بھی ٹھیک ہوئی ہے جس کی مجھے فکر ہورہی تھی۔ وہ یہ کہ کئی اشعار کے دوسرے مصرعہ کا آغاز لفظ "میں" سے ہورہا تھا۔۔۔ میں سوچ رہا تھا کہ اسے بھی بدلا جائے۔ اب بہتر ہے۔ سو، اب اس کی شکل کچھ یوں ہے:


ستم کا اس کے بھلا میں شمار کیا کرتا
یہ آنکھ اس کے لیے اشک بار کیاکرتا

مجھے خبر تھی کہ آنکھوں میں اس کی، نفرت ہے
میں اپنا چہرہ سوئے روئے یار کیاکرتا؟

خزاں کی رُت ہی لکھی تھی مِرے مقدر میں
تو میں تمنا تِری، اے بہار! کیا کرتا؟

مِرا ہی ظرف تھا سہتا رہا ستم اس کے
جو ہوتا اور کوئی، اس سے پیار کیا کرتا؟

جو بار بار مجھے تنہا چھوڑ جاتا تھا
اک ایسے شخص پہ میں اعتبار کیا کرتا

نہ تھا گوارا جسے نام بھی میں لوں اس کا
اسی کا تذکرہ لیل و نہار کیا کرتا

اسے جدائی خوشی سے قبول تھی عمار!
میں ساتھ رہنے کی منت ہزار کیا کرتا؟
 
Top