فرحت کیانی
لائبریرین
اور کچھ دور پر تان کر دھوپ میں
سایہ کرنے لگا ہے سفر دھوپ میں
میں مسافر نوازوں کا مارا ہُوا
بیج بوتا رہا عمر بھر دھوپ میں
ایک دیوار پرچھائیاں کھا گئی
ہم بھٹکتے رہے دربدر دھوپ میں
اس نے اپنے لیے چاندنی کھینچ لی
اور مجھ سے کہا، عیش کر دھوپ میں
اوس ہے یا گُہر خود ہی کُھل جائے گا
ہم نے رکھ دی متاعِ ہُنر دھوپ میں
ایک دریا تھا بہتا رہا سامنے
تشنگی کو نہ آیا نظر دھوپ میں
ہم کہ سورج زمیں پر لگاتے رہے
آخرش جل گئے بال و پَر دھوپ میں
اے مظفر یہ مقطع ردیفوں میں ہے
بس اسی آنچ کی تھی کسر دھوپ میں
--مظفر حنفی
سایہ کرنے لگا ہے سفر دھوپ میں
میں مسافر نوازوں کا مارا ہُوا
بیج بوتا رہا عمر بھر دھوپ میں
ایک دیوار پرچھائیاں کھا گئی
ہم بھٹکتے رہے دربدر دھوپ میں
اس نے اپنے لیے چاندنی کھینچ لی
اور مجھ سے کہا، عیش کر دھوپ میں
اوس ہے یا گُہر خود ہی کُھل جائے گا
ہم نے رکھ دی متاعِ ہُنر دھوپ میں
ایک دریا تھا بہتا رہا سامنے
تشنگی کو نہ آیا نظر دھوپ میں
ہم کہ سورج زمیں پر لگاتے رہے
آخرش جل گئے بال و پَر دھوپ میں
اے مظفر یہ مقطع ردیفوں میں ہے
بس اسی آنچ کی تھی کسر دھوپ میں
--مظفر حنفی