غزل۔ اک طنز بھی نگاہِ سخن آفریں میں تھا ۔ شبنم رومانی

محمداحمد

لائبریرین
غزل

اک طنز بھی نگاہِ سخن آفریں میں تھا
ہم پی گئے ، مگر یہ سلیقہ ہمیں میں تھا

اُس چشم و لب کے باب میں کیا تبصرہ کروں
اک بے پناہ شعر غزل کی زمیں میں تھا

خوشبو کسی طرح بھی نہ آئی گرفت میں
کیا حسنِ احتیاط مرے ہم نشیں میں تھا

کوزہ بنا رہے تھے جو مٹّی بھرے یہ ہاتھ
پہنچا ہوا میں اور کسی سر زمیں میں تھا

کل شب گِھرا ہوا تھا میں دو دشمنوں کے بیچ
اک سانپ راستے میں تھا، اک آستیں میں تھا

ہر سنگِ میل پر یہی گزرا مجھے قیاس
زندہ گڑا ہوا کوئی جیسے زمیں میں تھا

شبنم رومانی
 
خوشبو کسی طرح بھی نہ آئی گرفت میں
کیا حسنِ احتیاط مرے ہم نشیں میں تھا

کل شب گِھرا ہوا تھا میں دو دشمنوں کے بیچ
اک سانپ راستے میں تھا، اک آستیں میں تھا

بہت خوب جناب۔ شکریہ
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ احمد صاحب خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیے، بہت اچھے اشعار ہیں!

اُس چشم و لب کے باب میں کیا تبصرہ کروں
اک بے پناہ شعر غزل کی زمیں میں تھا

واہ واہ واہ، لا جواب!
 

محمداحمد

لائبریرین
آبی ٹوکول, الف عین, سخنور, سید محمد نقوی, محمد نعمان, محمد وارث, نوید صادق, پیاسا صحرا

تمام احباب کا شکریہ۔
 
Top