سید توصیف حیدر زیدی
محفلین
عشق کی جزا ہیں ہم، عشق کے سوا کیا دیں؟
عشق کی بقا ہیں ہم،عشق کے سوا کیا دیں؟
درد کے مریضوں کو درد کی دوا کیا دیں؟
درد کا سبب ہیں ہم، درد کے سوا کیا دیں؟
زرد سی فضاؤں نے گرد ہے پھلا رکھی
گرد کی بہاروں میں اک نئی صبا کیا دیں؟
عشق میں وفا نامی چیز ہی نہیں اب تو
کسی کو وفا کیا دیں،کسی کو جفا کیا دیں؟
بد نصیبی اب جو بن چکی ہے مقدر تو
کسی کی دعا کیا لیں،کسی کو دعا کیا دیں؟
دیر سے حرم کو لڑواتے ہیں یہ واعظ تو
دیر سے خدا کیا لیں،دیر کو خدا کیا دیں؟
یاروں سےملے ہیں توصیفؔ بس ستم ہم کو
تحفے ہیں پیاروں کے انہیں اب جدا کیا دیں؟
(توصیف زیدی)
عشق کی بقا ہیں ہم،عشق کے سوا کیا دیں؟
درد کے مریضوں کو درد کی دوا کیا دیں؟
درد کا سبب ہیں ہم، درد کے سوا کیا دیں؟
زرد سی فضاؤں نے گرد ہے پھلا رکھی
گرد کی بہاروں میں اک نئی صبا کیا دیں؟
عشق میں وفا نامی چیز ہی نہیں اب تو
کسی کو وفا کیا دیں،کسی کو جفا کیا دیں؟
بد نصیبی اب جو بن چکی ہے مقدر تو
کسی کی دعا کیا لیں،کسی کو دعا کیا دیں؟
دیر سے حرم کو لڑواتے ہیں یہ واعظ تو
دیر سے خدا کیا لیں،دیر کو خدا کیا دیں؟
یاروں سےملے ہیں توصیفؔ بس ستم ہم کو
تحفے ہیں پیاروں کے انہیں اب جدا کیا دیں؟
(توصیف زیدی)
آخری تدوین: