فراز غزل۔ جو حرفِ حق تھا وہی جا بجا کہا سو کہا

فرحت کیانی

لائبریرین
جو حرفِ حق تھا وہی جا بجا کہا سو کہا
بلا سے شہر میں میرا لہو بہا سو بہا

ہمی کو اہلِ جہاں سے تھا اختلاف سو ہے
ہمی نے اہلِ جہاں کا ستم سہا سو سہا

جسے جسے نہیں چاہا اُسے اُسے چاہا
جہاں جہاں بھی مرا دل نہیں رہا سو رہا

نہ دوسروں سے ندامت نہ خود سے شرمندہ
کہ جو کیا سو کیا اور جو کہا سو کہا

یہ دیکھ تجھ سے وفا کی کہ بے وفائی کی
چلو میں اور کہیں مبتلا رہا سو رہا

ترے نصیب اگر جا لگے کنارے سے
وگرنہ سیلِ زمانہ میں جو بہا سو بہا

شکست و فتح مرا مسئلہ نہیں ہے فراز
میں زندگی سے نبرد آزما رہا سو رہا

احمد فراز
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا خوبصورت غزل ہے بہت شکریہ فرحت شیئر کرنے کیلیے!

جو حرفِ حق تھا وہی جا بجا کہا سو کہا
بلا سے شہر میں میرا لہو بہا سو بہا

ہمی کو اہلِ جہاں سے تھا اختلاف سو ہے
ہمی نے اہلِ جہاں کا ستم سہا سو سہا

ترے نصیب اگر جا لگے کنارے سے
وگرنہ سیلِ زمانہ میں جو بہا سو بہا

واہ واہ واہ، اور سبحان اللہ کیا لازوال مقطع ہے، ایسے اشعار ہی فراز کو حیاتِ جاوید عطا کر گئے ہیں:

شکست و فتح مرا مسئلہ نہیں ہے فراز
میں زندگی سے نبرد آزما رہا سو رہا
 

طالوت

محفلین
نہ دوسروں سے ندامت نہ خود سے شرمندہ
کہ جو کیا سو کیا اور جو کہا سو کہا

بہت خوب ۔
وسلام
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ واہ واہ۔۔۔۔!

احمد فراز کی کیا بات ہے۔

ہم بھی کیا لوگ ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ​
 
Top