غزل۔ خراب و خستہ سا دن، خستہ و خراب سی شام ۔ بابر جاوید

محمداحمد

لائبریرین
غزل

خراب و خستہ سا دن، خستہ و خراب سی شام
وہی فراق سامنظر، وہی عذاب سی شام

مرا نصیب تھی اے جاں، یہ خار خار سی رات
تری جدائی نے چن لی مری گلاب سی شام

ابھی تو پاؤں نہ رکھا تھا میں نے پانی میں
مرےگھڑے سے لپٹنے لگی چناب سی شام

اتر گیا ہے مرا دن تو شب کے دریا میں
سفر میں رکھے گی تا صبح اب سراب سی شام

یہ کشمکش ہی سبب ہے جمالِ ہستی کا
کبھی چمکتا سویرا، کبھی نقاب سی شام

ہوا نہ بڑھ کے بڑھا دے چراغ ہجر کی لو
نہ ڈھونڈ کوئے ندامت میں اب وہ خواب سی شام

بابر جاوید
 

مغزل

محفلین
مرا نصیب تھی اے جاں، یہ خار خار سی رات
تری جدائی نے چن لی مری گلاب سی شام

ابھی تو پاؤں نہ رکھا تھا میں نے پانی میں
مرےگھڑے سے لپٹنے لگی چناب سی شام

یہ کشمکش ہی سبب ہے جمالِ ہستی کا
کبھی چمکتا سویرا، کبھی نقاب سی شام

سبحان اللہ سبحان اللہ کیا کہنے احمد میاں بہت خوب کلام پیش کیا ہے ۔ بہت شکریہ
 
Top