سودا غزل۔ ساون کے بادلوں کی طرح سے بھرے ہوئے ۔ سودا

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

ساون کے بادلوں کی طرح سے بھرے ہوئے
یہ وہ نین ہیں جن سے کہ جنگل ہرے ہوئے

اے دل یہ کس سے بگڑی کہ آتی ہے فوجِ اشک
لختِ جگر کی نعش کو آگے دھرے ہوئے

پلکیں تری کہاں نہ صف آرا ہوئیں کہ واں
افواجِ قاہرہ کے نہ برہم پرے ہوئے

انکھیوں کو تیری کیونکہ میں باندھوں کہ یہ غزال
جاتے ہیں میرے دل کی زراعت چرے ہوئے

بوندی کے جمدھروں سے یہ بھِڑتے ہیں یک دگر
لڑ کے مجھ آنسواں کے نپٹ منگرے ہوئے

انصاف کس کو سونپیے اپنا بجز خدا
منصف جو بولتے ہیں سو تجھ سے ڈرے ہوئے

نزدیک اپنے رہنے سے مت کر تو ہمیں منع
ہیں لاکھ کوس جب ترے دل سے پرے ہوئے

مجلس میں چھوکروں کی جو چھیڑے سے شیخ جی
آویں تو پھر خدا نے کہا مسخرے ہوئے

سودا نکل نہ گھر سے کہ اب تجھ کو ڈھونڈتے
لڑکے پھرے ہیں پتھروں سے جھولی بھرے ہوئے

(مرزا رفیع سودا)
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ واہ، کیا غزل ہے لاجواب!

اور مجھے پورا یقین ہے یہ اشعار آپ کو بھی خاص طور پر پسند آئے ہونگے ;)


مجلس میں چھوکروں کی جو چھیڑے سے شیخ جی
آویں تو پھر خدا نے کہا مسخرے ہوئے

سودا نکل نہ گھر سے کہ اب تجھ کو ڈھونڈتے
لڑکے پھرے ہیں پتھروں سے جھولی بھرے ہوئے
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ واہ، کیا غزل ہے لاجواب!

اور مجھے پورا یقین ہے یہ اشعار آپ کو بھی خاص طور پر پسند آئے ہونگے ;)

بہت شکریہ وارث صاحب۔ مجھے تو ساری غزل ہی پسند آئی لیکن مقطع سے مجھے غالب کا شعر یاد آگیا۔
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

;)
 

مغزل

محفلین
ساون کے بادلوں کی طرح سے بھرے ہوئے
یہ وہ نین ہیں جن سے کہ جنگل ہرے ہوئے

اے دل یہ کس سے بگڑی کہ آتی ہے فوجِ اشک
لختِ جگر کی نعش کو آگے دھرے ہوئے

پلکیں تری کہاں نہ صف آرا ہوئیں کہ واں
افواجِ قاہرہ کے نہ برہم پرے ہوئے

انکھیوں کو تیری کیونکہ میں باندھوں کہ یہ غزال
جاتے ہیں میرے دل کی زراعت چرے ہوئے

بوندی کے جمدھروں سے یہ بھِڑتے ہیں یک دگر
لڑ کے مجھ آنسواں کے نپٹ منگرے ہوئے

انصاف کس کو سونپیے اپنا بجز خدا
منصف جو بولتے ہیں سو تجھ سے ڈرے ہوئے

نزدیک اپنے رہنے سے مت کر تو ہمیں منع
ہیں لاکھ کوس جب ترے دل سے پرے ہوئے

مجلس میں چھوکروں کی جو چھیڑے سے شیخ جی
آویں تو پھر خدا نے کہا مسخرے ہوئے

سودا نکل نہ گھر سے کہ اب تجھ کو ڈھونڈتے
لڑکے پھرے ہیں پتھروں سے جھولی بھرے ہوئے

---------------

کیا کہنے صاحب ، سبحان اللہ سبحان اللہ ، کیا زبان ہے ، بہت بہت شکریہ فرخ صاحب،
مالک و مولیٰ سدا سلامت شاد و آباد رکھے ، جی خو ش کردیا۔ اس اعلی انتخاب پر مبارکباد
گر قبول افتد زہے عزو شرف
 

جیہ

لائبریرین
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ میرکا کلام "آہ" ہے اور سودا کا کلام "واہ"

اور واقعی اس غزل کو پڑھ کر بے اختیار منہ سے واہ نکل جاتا ہے۔ تذکروں میں پڑھا ہے کہ سودا نے اردو غزل بلکہ ریختے کی زبان کافی حد تک صاف کی ۔ اس غزل میں بھی زبان صاف ہے اور سادہ طرز بیان مستزاد۔ البتہ سودا غزل کو فارسی طرز سے پاک نہ کر سکے ۔ میری مراد اس شعر سے ہے جس میں شیخ جی چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں۔ :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ میرکا کلام "آہ" ہے اور سودا کا کلام "واہ"

اور واقعی اس غزل کو پڑھ کر بے اختیار منہ سے واہ نکل جاتا ہے۔ تذکروں میں پڑھا ہے کہ سودا نے اردو غزل بلکہ ریختے کی زبان کافی حد تک صاف کی ۔ اس غزل میں بھی زبان صاف ہے اور سادہ طرز بیان مستزاد۔ البتہ سودا غزل کو فارسی طرز سے پاک نہ کر سکے ۔ میری مراد اس شعر سے ہے جس میں شیخ جی چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں۔ :)

اچھا تبصرہ ہے واہ! ۔ پھر آپ ان غزلوں کو بھی دیکھیے۔

تمنا کی انکھیاں نے سجن ہمنا کا دل جھٹ پٹ لیا

نکل نہ چوکھٹ سے گھر کی پیارے، جو پٹ کے اوجھل ٹھٹک رہا ہے

لاتا ہے بزم میں وہ سخن بر زباں زبُوں
 
Top