نجم الحسن کاظمی
محفلین
لگتا تھا کہ خُورشیدِقیامت نکل آیا
یہ داغِ جگر تابِ محبت نکل آیا
وہ شوخ کہ جو خود کو بچاتا پھرا مجھ سے
تقدیر ، کہ میں اُسکی ضرورت نکل آیا
اُس چہرے کے اوراق پہ ڈالیں جونگاہیں
آواز سے اندازِ تلاوت نکل آیا
یہ داغِ جگر تابِ محبت نکل آیا
وہ شوخ کہ جو خود کو بچاتا پھرا مجھ سے
تقدیر ، کہ میں اُسکی ضرورت نکل آیا
اُس چہرے کے اوراق پہ ڈالیں جونگاہیں
آواز سے اندازِ تلاوت نکل آیا