غزل: آ، نئے سال کو یوں عمر میں لایا جائے

آداب ، دوستو!

نئے سال کی آمد آمد ہے . آپ سب کو نئے سال کی دلی مبارکباد! اِس موقع پر ایک مسلسل غزل پیش خدمت ہے . آپ کی رائے کا انتظار رہے گا .

غزل

آ، نئے سال کو یوں عمر میں لایا جائے
جشن اب كے کوئی رسمی نہ منایا جائے

اپنے دروازے پہ پھولوں كے نہ ہوں ہار اِس بار
غیر کی راہ كے کانٹوں کو ہٹایا جائے

قمقمے صحن میں اپنے نہ جلائے جا ئیں
کسی بستی كے اندھیروں کو مٹایا جائے

اپنے آگے نہ ہو خوش ذائقہ کھانوں کی قطار
بلکہ کھانا کسی بھوکے کو کھلایا جائے

زیب تن اک نئی پوشاک نہ کی جائے پِھر
تنِ عریاں کسی مفلس کا چھپایا جائے

رقص كے واسطے تعمیر نہ ہو فرش کوئی
گھر بچارے کسی بے گھر کا بنایا جائے

بوجھ تحفوں کا اٹھانے سے کہیں بہتر ہے
بوجھ مزدور كے شانوں کا اٹھایا جائے

اصل تیو ہار وہ ہے جس میں سبھی شامل ہوں
نوعِ انساں کو یہ احساس دلایا جائے

اِس نئے سال میں عؔابد ہو نئی بات کوئی
جشنِ آمد کا نیا ڈھنگ سکھایا جائے

نیازمند،
عرفان عؔابد
 
مدیر کی آخری تدوین:
آداب ، دوستو!

نئے سال کی آمد آمد ہے . آپ سب کو نئے سال کی دلی مبارکباد! اِس موقع پر ایک مسلسل غزل پیش خدمت ہے . آپ کی رائے کا انتظار رہے گا .

غزل

آ، نئے سال کو یوں عمر میں لایا جائے
جشن اب كے کوئی رسمی نہ منایا جائے

اپنے دروازے پے پھولوں كے نہ ہوں ہار اِس بار
غیر کی راہ كے کانٹوں کو ہٹایا جائے

قمقمے صحن میں اپنے نہ جلائے جا ئیں
کسی بستی كے اندھیروں کو مٹایا جائے

اپنے آگے نہ ہو خوش ذائقہ کھانوں کی قطار
بلکہ کھانا کسی بھوکے کو کھلایا جائے

زیب تن اک نئی پوشاک نہ کی جائے پِھر
تنِ عریاں کسی مفلس کا چھپایا جائے

رقص كے واسطے تعمیر نہ ہو فرش کوئی
گھر بچارے کسی بے گھر کا بنایا جائے

بوجھ تحفوں کا اٹھانے سے کہیں بہتر ہے
بوجھ مزدور كے شانوں کا اٹھایا جائے

اصل تیو ہار وہ ہے جس میں سبھی شامل ہوں
نوعِ انساں کو یہ احساس دلایا جائے

اِس نئے سال میں عؔابد ہو نئی بات کوئی
جشنِ آمد کا نیا ڈھنگ سکھایا جائے

نیازمن
عرفان عؔابد
بہت خوب ۔۔۔ ماشاءاللہ عمدہ خیالات کو کیا بہترین پیرائے میں بیان کیا ہے۔ اللہ پاک ان امیدوں کو پورا فرمائے۔ آمین۔
 
آداب ، دوستو!

نئے سال کی آمد آمد ہے . آپ سب کو نئے سال کی دلی مبارکباد! اِس موقع پر ایک مسلسل غزل پیش خدمت ہے . آپ کی رائے کا انتظار رہے گا .

غزل

آ، نئے سال کو یوں عمر میں لایا جائے
جشن اب كے کوئی رسمی نہ منایا جائے

اپنے دروازے پے پھولوں كے نہ ہوں ہار اِس بار
غیر کی راہ كے کانٹوں کو ہٹایا جائے

قمقمے صحن میں اپنے نہ جلائے جا ئیں
کسی بستی كے اندھیروں کو مٹایا جائے

اپنے آگے نہ ہو خوش ذائقہ کھانوں کی قطار
بلکہ کھانا کسی بھوکے کو کھلایا جائے

زیب تن اک نئی پوشاک نہ کی جائے پِھر
تنِ عریاں کسی مفلس کا چھپایا جائے

رقص كے واسطے تعمیر نہ ہو فرش کوئی
گھر بچارے کسی بے گھر کا بنایا جائے

بوجھ تحفوں کا اٹھانے سے کہیں بہتر ہے
بوجھ مزدور كے شانوں کا اٹھایا جائے

اصل تیو ہار وہ ہے جس میں سبھی شامل ہوں
نوعِ انساں کو یہ احساس دلایا جائے

اِس نئے سال میں عؔابد ہو نئی بات کوئی
جشنِ آمد کا نیا ڈھنگ سکھایا جائے

نیازمند،
عرفان عؔابد
اچھی غزل ہے جناب۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے ماشاء اللہ،
ایک لفظ میں ٹائپنگ کی غلطی محسوس ہوئی، 'پے' بمعنی پر کو بھی 'پہ' ہی لکھنا چاہیے
 
اچھی غزل ہے ماشاء اللہ،
ایک لفظ میں ٹائپنگ کی غلطی محسوس ہوئی، 'پے' بمعنی پر کو بھی 'پہ' ہی لکھنا چاہیے

الف عین صاحب، آپ کی گراں قدر داد میرے لئے باعثِ افتخٓار ہے ۔ تصحیح کا شکریہ!
نیازمند،
عرفان عؔابد
 
Top