رئیس امروہوی غزل : آؤ کچھ شغل کریں آج سحر ہونے تک - رئیس امروہوی

غزل
آؤ کچھ شغل کریں آج سحر ہونے تک !
توبہ کر لیں گے فرشتوں کو خبر ہونے تک

دیکھ اے رتبۂ انسانیتِ خاص مجھے
کتنے ادوار سے گزرا ہوں بشر ہونے تک

اور ہو جائے گا کچھ شمس و قمر کا مفہوم
ذرۂ خاک ! ترے شمس و قمر ہونے تک

موت کے گتنے مراحل سے گزرنا ہے ہمیں
آخری مرحلۂ زیست کے سر ہونے تک

فائدہ قافلے والوں کے حدی خوانی سے ؟
شوقِ منزل نہ رہا حُکم سفر ہونے تک

ہم بھی تھے پیش روِ لشکرِ شاہین و عقاب
برطرف قائدۂ جنبشِ پر ہونے تک

کوئی بھی محرمِ آدابِ تماشا نہ رہا
جلوۂ دوست کے شایان نظر ہونے تک

کون بتلائے کہ کہسار پہ کیا کیا گزری
سینۂ سنگ میں ہیجانِ شرر ہونے تک

کیا گزر جائے گی ، الفاظ و معانی پہ رئیسؔ
عیبِ تخلیق کے تخلیق ہنر ہونے تک
رئیس امروہوی
1965ء
 
آخری تدوین:
موت کے گتنے مراحل غلط ہوگا موت کے کتنے مراحل

شرر سینے کی اس میں امروہی صاحب نے بہت خوب ڈالا ہے جیسے
توبہ کر لیں گے فرشتوں کو خبر ہونے تک
 
شکریہ بھائی
موت کے گتنے مراحل غلط ہوگا موت کے کتنے مراحل

شرر سینے کی اس میں امروہی صاحب نے بہت خوب ڈالا ہے جیسے
توبہ کر لیں گے فرشتوں کو خبر ہونے تک
شکریہ
ہم جب انھیں خبر سے بچا رہے ہیں تو اچھی بات ہوئی بری کیسے؟
 

فلسفی

محفلین
ہم جب انھیں خبر سے بچا رہے ہیں تو اچھی بات ہوئی بری کیسے؟
ازراہ تفنن کہا ہے بھائی جی۔
پہلے مصرعے میں دعوت گناہ ہے جبکہ دوسرے میں توبہ کا ذکر یعنی گناہ اس امید پر کہ فرشتوں کو خبر ہونے سے پہلے توبہ کر لی جائے گی۔ اس لیے کہا بری بات :shameonyou:
 
Top