فرحان محمد خان
محفلین
غزل
آؤ کچھ شغل کریں آج سحر ہونے تک !
توبہ کر لیں گے فرشتوں کو خبر ہونے تک
دیکھ اے رتبۂ انسانیتِ خاص مجھے
کتنے ادوار سے گزرا ہوں بشر ہونے تک
اور ہو جائے گا کچھ شمس و قمر کا مفہوم
ذرۂ خاک ! ترے شمس و قمر ہونے تک
موت کے گتنے مراحل سے گزرنا ہے ہمیں
آخری مرحلۂ زیست کے سر ہونے تک
فائدہ قافلے والوں کے حدی خوانی سے ؟
شوقِ منزل نہ رہا حُکم سفر ہونے تک
ہم بھی تھے پیش روِ لشکرِ شاہین و عقاب
برطرف قائدۂ جنبشِ پر ہونے تک
کوئی بھی محرمِ آدابِ تماشا نہ رہا
جلوۂ دوست کے شایان نظر ہونے تک
کون بتلائے کہ کہسار پہ کیا کیا گزری
سینۂ سنگ میں ہیجانِ شرر ہونے تک
کیا گزر جائے گی ، الفاظ و معانی پہ رئیسؔ
عیبِ تخلیق کے تخلیق ہنر ہونے تک
آؤ کچھ شغل کریں آج سحر ہونے تک !
توبہ کر لیں گے فرشتوں کو خبر ہونے تک
دیکھ اے رتبۂ انسانیتِ خاص مجھے
کتنے ادوار سے گزرا ہوں بشر ہونے تک
اور ہو جائے گا کچھ شمس و قمر کا مفہوم
ذرۂ خاک ! ترے شمس و قمر ہونے تک
موت کے گتنے مراحل سے گزرنا ہے ہمیں
آخری مرحلۂ زیست کے سر ہونے تک
فائدہ قافلے والوں کے حدی خوانی سے ؟
شوقِ منزل نہ رہا حُکم سفر ہونے تک
ہم بھی تھے پیش روِ لشکرِ شاہین و عقاب
برطرف قائدۂ جنبشِ پر ہونے تک
کوئی بھی محرمِ آدابِ تماشا نہ رہا
جلوۂ دوست کے شایان نظر ہونے تک
کون بتلائے کہ کہسار پہ کیا کیا گزری
سینۂ سنگ میں ہیجانِ شرر ہونے تک
کیا گزر جائے گی ، الفاظ و معانی پہ رئیسؔ
عیبِ تخلیق کے تخلیق ہنر ہونے تک
رئیس امروہوی
1965ء
1965ء
آخری تدوین: