مہدی نقوی حجاز
محفلین
غزل
آخری بار تجھ سے مل رہا ہوں
میں کہ تیرا قرارِ دل رہا ہوں
تو سراپا خدا کی صورت ہے
اور میں تجھ پہ ایک تل رہا ہوں
یہ جو اب ہو گیا ہوں پتھر کا
اس سے پہلے میں خشت و گل رہا ہوں
میں نے دریا کو مضطرب کیا ہے
میں کنارا بھی مضمحل رہا ہوں
اب جو میں آگ ہوں بھڑکتی آگ
کون مانے گا میں خجل رہا ہوں؟
ایک ہی بات ہے حجازؔ مری
چاہے ٹھہرا ہوں چاہے ہل رہا ہوں
مہدی نقوی حجازؔ
آخری بار تجھ سے مل رہا ہوں
میں کہ تیرا قرارِ دل رہا ہوں
تو سراپا خدا کی صورت ہے
اور میں تجھ پہ ایک تل رہا ہوں
یہ جو اب ہو گیا ہوں پتھر کا
اس سے پہلے میں خشت و گل رہا ہوں
میں نے دریا کو مضطرب کیا ہے
میں کنارا بھی مضمحل رہا ہوں
اب جو میں آگ ہوں بھڑکتی آگ
کون مانے گا میں خجل رہا ہوں؟
ایک ہی بات ہے حجازؔ مری
چاہے ٹھہرا ہوں چاہے ہل رہا ہوں
مہدی نقوی حجازؔ