ارشد رشید
محفلین
غزل
آدمی پتھر کے ہیں دیوار و د ر پتھر کے ہیں
سب مکاں ہیں بے صدا اور سارے گھر پتھر کے ہیں
کِرچی کرچی ہو گیا شیشہ مرے پندار کا
دوسروں کی بات کیا' اہلِ ہُنر پتھر کے ہیں
پتھروں کی منڈیاں، ہر جنس بھی پتھر کی ہے
چلنے والے اس میں سب لعل و گہر پتھر کے ہیں
وحشتیں لوگوں کی' جیسے وقت گزرا ہی نہیں
پتھروں کا دور ہے شام و سحر پتھر کے ہیں
کو ئ روتا بھی نہیں ہر دن نئی ہے کربلا
کیا کہوں اسکے سِوا قلب و نظر پتھر کے ہیں
زندہ رہنا ہے تو پھر پتھر ہی بن جائیں نہ کیوں
دھوپ کا پھر غم نہیں، ارشد! اگر پتھر کے ہیں
=ارشد رشید =
آدمی پتھر کے ہیں دیوار و د ر پتھر کے ہیں
سب مکاں ہیں بے صدا اور سارے گھر پتھر کے ہیں
کِرچی کرچی ہو گیا شیشہ مرے پندار کا
دوسروں کی بات کیا' اہلِ ہُنر پتھر کے ہیں
پتھروں کی منڈیاں، ہر جنس بھی پتھر کی ہے
چلنے والے اس میں سب لعل و گہر پتھر کے ہیں
وحشتیں لوگوں کی' جیسے وقت گزرا ہی نہیں
پتھروں کا دور ہے شام و سحر پتھر کے ہیں
کو ئ روتا بھی نہیں ہر دن نئی ہے کربلا
کیا کہوں اسکے سِوا قلب و نظر پتھر کے ہیں
زندہ رہنا ہے تو پھر پتھر ہی بن جائیں نہ کیوں
دھوپ کا پھر غم نہیں، ارشد! اگر پتھر کے ہیں
=ارشد رشید =