پیاسا صحرا
محفلین
آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح
جسم سلگا ہے تری یاد میں ایندھن کی طرح
لوریاں دی ہیں کسی قرب کی خواہش نے مجھے
کچھ جوانی کے بھی دن گزرے ہیں بچپن کی طرح
اس بلندی سے مجھے تو نے نوازا کیوں تھا
گر کے ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح
مجھ سے ملتے ہوئے یہ بات تو سوچی ہوتی
میں ترے دل میں سماجاؤں گا دھڑکن کی طرح
منتطر ہے کسی مخصوص سی آہٹ کے لیے
زندگی بیٹھی ہے دہلیز پہ برہن کی طرح
مرتضٰی برلاس بیگ
جسم سلگا ہے تری یاد میں ایندھن کی طرح
لوریاں دی ہیں کسی قرب کی خواہش نے مجھے
کچھ جوانی کے بھی دن گزرے ہیں بچپن کی طرح
اس بلندی سے مجھے تو نے نوازا کیوں تھا
گر کے ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح
مجھ سے ملتے ہوئے یہ بات تو سوچی ہوتی
میں ترے دل میں سماجاؤں گا دھڑکن کی طرح
منتطر ہے کسی مخصوص سی آہٹ کے لیے
زندگی بیٹھی ہے دہلیز پہ برہن کی طرح
مرتضٰی برلاس بیگ