غزل - آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح - مرتضٰی برلاس بیگ

آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح
جسم سلگا ہے تری یاد میں ایندھن کی طرح

لوریاں دی ہیں کسی قرب کی خواہش نے مجھے
کچھ جوانی کے بھی دن گزرے ہیں بچپن کی طرح

اس بلندی سے مجھے تو نے نوازا کیوں تھا
گر کے ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح

مجھ سے ملتے ہوئے یہ بات تو سوچی ہوتی
میں ترے دل میں سماجاؤں گا دھڑکن کی طرح

منتطر ہے کسی مخصوص سی آہٹ کے لیے
زندگی بیٹھی ہے دہلیز پہ برہن کی طرح

مرتضٰی برلاس بیگ
 

ایم اے راجا

محفلین
لوریاں دی ہیں کسی قرب کی خواہش نے مجھے
کچھ جوانی کے بھی دن گزرے ہیں بچپن کی طرح

اس بلندی سے مجھے تو نے نوازا کیوں تھا
گر کے ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح

مجھ سے ملتے ہوئے یہ بات تو سوچی ہوتی
میں ترے دل میں سماجاؤں گا دھڑکن کی طرح
واہ واہ بہت خوب، پیاسا صحرا جی، میری پسندیدہ غزل شیئر کرنے کا
 

مغزل

محفلین
کیا کہنے پیاسا صحرا صاحب ۔
واہ بہت خوب ، میں رات ہی مرتضی برلاس ( گرہِ نیم باز ) پڑھ رہا تھا، رات ٹائپ کر کے رکھی ، مگر صبح آپ بازی لے گئے ۔
مولیٰ سلامت رکھے ، سدا خوش رہیں‌جناب ، بہت خوب کلام پیش کیا ہے۔
 
کیا کہنے پیاسا صحرا صاحب ۔
واہ بہت خوب ، میں رات ہی مرتضی برلاس ( گرہِ نیم باز ) پڑھ رہا تھا، رات ٹائپ کر کے رکھی ، مگر صبح آپ بازی لے گئے ۔
مولیٰ سلامت رکھے ، سدا خوش رہیں‌جناب ، بہت خوب کلام پیش کیا ہے۔

محترم معذرت کہ مجھے اس بات کا علم نہ تھا ۔
 

مغزل

محفلین
نہیں ایسا نہیں دوست ، میں نے صرف ’’ دل کو دل سے راہ ‘‘ ہونے کی بات کی ہے ، آئندہ خیال رکھوں گا، شرمندگی سے بچائیں‌اور یہ معذرت کے الفاظ مدون کرلیں۔ پیشگی شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، لیکن
س بلندی سے مجھے تو نے نوازا کیوں تھا
گر کے ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح
کے دوسرے مصرعے میں ’گر کے میں ٹوٹ گیا‘ ہونا چاہئے۔
یہ مرتضیٰ برلاس صاحب بیگ بھی ہیں؟؟
 

محمداحمد

لائبریرین
س بلندی سے مجھے تو نے نوازا کیوں تھا
گر کے ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح

بہت ہی خوبصورت غزل ہے۔
 

شیزان

لائبریرین
لوریاں دی ہیں کسی قرب کی خواہش نے مجھے​
کچھ جوانی کے بھی دن گزرے ہیں بچپن کی طرح​

اس بلندی سے مجھے تو نے نوازا کیوں تھا​
گر کے ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح

سدابہار غزل۔۔ اور اعجاز قیصر نے کیا خوب گایا اسے۔۔​
 
Top