دائم
محفلین
امیرِ شہر کیوں بن کر شرار اس پر لپکتا ہے؟
غریبِ شہر کے آنگن میں جو بھی گل مہکتا ہے
محافظ تھے جو ملت کے وہی غدار بن بیٹھے
حجابِ غیرتِ قومی کبھی یوں بھی سَرَکتا ہے
دمِ تیغِ جنوں نے کیا لکھا بر سینۂِ عاشق
فرازِ دار پر جو بے خودی میں یوں لہکتا ہے
چراغِ ضبط ہے حالات کی تُندی کے پیشِ رَو
وہ جتنا تلخ تر ہوتے ہیں ، یہ اُتنا بھڑکتا ہے
سُرورِ لمسِ پائے عاشقِ منزل سے ہر ذرّہ
فلک پر مثلِ انجم کیف و مستی میں چمکتا ہے
اجالا دن کا کیا جانے ، جفائے وقت سے ہر دم
کوئی آشفتہ سَر پہلوئے شب میں کیوں سسکتا ہے؟
نرالی ہیں شرابِ عشق کی سرمستیاں دائم
کوئی پی کر سنبھلتا ہے ، کوئی پی کر بہکتا ہے
غریبِ شہر کے آنگن میں جو بھی گل مہکتا ہے
محافظ تھے جو ملت کے وہی غدار بن بیٹھے
حجابِ غیرتِ قومی کبھی یوں بھی سَرَکتا ہے
دمِ تیغِ جنوں نے کیا لکھا بر سینۂِ عاشق
فرازِ دار پر جو بے خودی میں یوں لہکتا ہے
چراغِ ضبط ہے حالات کی تُندی کے پیشِ رَو
وہ جتنا تلخ تر ہوتے ہیں ، یہ اُتنا بھڑکتا ہے
سُرورِ لمسِ پائے عاشقِ منزل سے ہر ذرّہ
فلک پر مثلِ انجم کیف و مستی میں چمکتا ہے
اجالا دن کا کیا جانے ، جفائے وقت سے ہر دم
کوئی آشفتہ سَر پہلوئے شب میں کیوں سسکتا ہے؟
نرالی ہیں شرابِ عشق کی سرمستیاں دائم
کوئی پی کر سنبھلتا ہے ، کوئی پی کر بہکتا ہے