غزل - احباب کی بصارتوں کی نذر

دائم

محفلین
جو بزعم اپنے وفا کار بنا بیٹھا ہے
شر کا وہ حاشیہ بردار بنا بیٹھا ہے

اس کی فرفند خُوئی سے ہیں سبھی آزُردہ
امنِ عالم کا جو اوتار بنا بیٹھا ہے

جس کی دستار سے جھڑتا ہے غبارِ عصیاں !
دیکھئیے ! سیّدِ اطہار بنا بیٹھا ہے

کوشش و کاوشِ فہمائشِ کج باز عبث !
جبکہ وہ آپ ہی اِکسار بنا بیٹھا ہے

لطمۂِ زُور نہ کیوں عارضِ عسکر پہ پڑے ؟
جبکہ سالار ہی مکّار بنا بیٹھا ہے

کل تلک دخمۂ خلوت میں نہاں تھا لیکن !
آج وہ زینتِ بازار بنا بیٹھا ہے

جادۂ زیست میں ہوتا تھا جو ہم گام مِرا
دائمؔ اب سامنے دیوار بنا بیٹھا ہے
 
چند گزارشات کرنا چاہوں گا امید ہے برا نہیں منائیں گے.
جو بزعم اپنے وفا کار بنا بیٹھا ہے
شر کا وہ حاشیہ بردار بنا بیٹھا ہے
کسی شخص کا بہ یک وقت وفا کار اور شر انگیز ہونا میرے نزدیک محال نہیں.
یہ لفظ میرے لیے نیا ہے. اگر سنسکرت یا ہندی سے ماخوذ ہے تو فرفند خوئی کی ترکیب درست نہیں ہوگی.
"بزعم اپنے" میری دانست کے مطابق درست نہیں، بزعمِ خویش عام استعمال ہوتا ہے:
بزعمِ خویش = بہ زعمِ خویش = اپنے گمان میں/کے مطابق
کوشش و کاوشِ فہمائشِ کج باز عبث
کج باز کیا معنی رکھتا ہے؟

مجموعی طور پر کوئی بھی شعر مجھے متاثر کن معلوم نہیں ہوا، اس میں میری کج فہمی کا قصور ہو سکتا ہے.
 
آخری تدوین:
لطمۂِ زُور نہ کیوں عارضِ عسکر پہ پڑے ؟
جبکہ سالار ہی مکّار بنا بیٹھا ہے
سالار کا مکار ہونا بھی سپاہ کے لیے ضروری نہیں کہ برا ہو. مکار اور غدار میں فرق ہے.
لطمۂ زور کی ترکیب بھی کچھ کھٹک رہی ہے، شاید لطمۂ زور آور یا زور دار ہوتا تو بہتر رہتا.
 

الف عین

لائبریرین
بھاری بھر کم الفاظ سے مرعوب کرنے کی شعوری کوشش معلوم ہوتی ہے اس سے بچیں۔ شعر کی یہ خوبی نہیں خامی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اچھی غزل ہے البتہ کچھ تصنع کا ساشائبہ بھی گزرتا ہے جس کی وجہ سے پختگی اور شعری لطافت ہو رہی ہے تاہم کئی جگہ انداز بیان بہت اچھا ہے ۔
تبصروں کے اکثر نکات بھی بر محل مذکور کیے ہیں ان سے رہنمائی لینا بہتر ہے ۔
 

فرقان احمد

محفلین
اچھی غزل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قریب قریب ہر شعر کا پہلا مصرع نسبتاََ ثقیل زبان میں ہے جب کہ دوسرا مصرع کافی عام فہم زبان میں ہے یعنی کہ ہر طرح کا شعری مذاق و مزاج رکھنے والوں کے لیے یکساں طور پر مفید ہے۔ ایک اچھی کاوش ہے۔۔۔! بہت خوب!
 
Top