محمد تابش صدیقی
منتظم
اس بارگاہِ ناز کو منزل بنا کے چل
آنکھوں میں ان کا جلوۂ رنگیں بسا کے چل
ہر پھول آستیں میں ہے کانٹا لیے ہوئے
اس باغِ پُر بہار میں دامن بچا کے چل
اس دیس میں خودی پہ ہے اظہار ناروا
گر سر کٹا سکے تو یہاں سر اٹھا کے چل
اک لغزشِ نگاہ میں ہے غارتِ حیات
فتنوں بھری فضا میں نگاہیں جھکا کے چل
گر حریت کے گیت ہی گانے کا ہو جنوں
زنجیرِ قید اپنے لیے خود اٹھا کے چل
پیشِ نظر اگر ہے حقیقت کی جستجو
بت خانۂ خیال کو ٹھوکر لگا کے چل
٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
آنکھوں میں ان کا جلوۂ رنگیں بسا کے چل
ہر پھول آستیں میں ہے کانٹا لیے ہوئے
اس باغِ پُر بہار میں دامن بچا کے چل
اس دیس میں خودی پہ ہے اظہار ناروا
گر سر کٹا سکے تو یہاں سر اٹھا کے چل
اک لغزشِ نگاہ میں ہے غارتِ حیات
فتنوں بھری فضا میں نگاہیں جھکا کے چل
گر حریت کے گیت ہی گانے کا ہو جنوں
زنجیرِ قید اپنے لیے خود اٹھا کے چل
پیشِ نظر اگر ہے حقیقت کی جستجو
بت خانۂ خیال کو ٹھوکر لگا کے چل
٭٭٭
نعیم صدیقیؒ