فرحان محمد خان
محفلین
غزل
اس شہر کے لوگوں پہ ختم سہی ، خوش طلعتی و گُل پیرہنی
مرے دل کی تو پیاس کبھی نہ بُجھی، مرے جی کی بات کبھی نہ بنی
ابھی کل ہی بات ہے جانِ جہاں ، یہاں خیل کے خیل تھے شور کناں
اب نعرۂ عشق نہ ضربِ فغاں ، گئے کون نگر وہ وفا کے دھنی
کوئی اور بھی موردِ لطف ہوا ؟ ملی اہلِ ہوس کو ہوس کی سزا؟
ترے شہر میں تھے ہمیں اہلِ وفا ، ملی ایک ہمیں کو جلا وطنی
یہ تو سچ ہے ہم تجھے پا نہ سکے ، تری یاد بھی جی سے بُھلا نہ سکے
ترا داغ ہے دل میں چراغ صفت ، ترے نام کی زیبِ گلو کفنی
تم سختیِ راہ کا غم نہ کرو ، ہر دور کی راہ میں ہم سفرو
جہاں دشتِ خزاں وہیں وادیِ گل ، جہاں دھوپ کڑی وہاں چھاؤں کھنی
اس عشق کے درد کی کون دوا ، مگر ایک وظیفہ ہے ایک دعا
پڑھو میرؔ اور کبیرؔ کی بیت کبت ، سنو شعرِ نظیرِؔ فقیر و عنی
اس شہر کے لوگوں پہ ختم سہی ، خوش طلعتی و گُل پیرہنی
مرے دل کی تو پیاس کبھی نہ بُجھی، مرے جی کی بات کبھی نہ بنی
ابھی کل ہی بات ہے جانِ جہاں ، یہاں خیل کے خیل تھے شور کناں
اب نعرۂ عشق نہ ضربِ فغاں ، گئے کون نگر وہ وفا کے دھنی
کوئی اور بھی موردِ لطف ہوا ؟ ملی اہلِ ہوس کو ہوس کی سزا؟
ترے شہر میں تھے ہمیں اہلِ وفا ، ملی ایک ہمیں کو جلا وطنی
یہ تو سچ ہے ہم تجھے پا نہ سکے ، تری یاد بھی جی سے بُھلا نہ سکے
ترا داغ ہے دل میں چراغ صفت ، ترے نام کی زیبِ گلو کفنی
تم سختیِ راہ کا غم نہ کرو ، ہر دور کی راہ میں ہم سفرو
جہاں دشتِ خزاں وہیں وادیِ گل ، جہاں دھوپ کڑی وہاں چھاؤں کھنی
اس عشق کے درد کی کون دوا ، مگر ایک وظیفہ ہے ایک دعا
پڑھو میرؔ اور کبیرؔ کی بیت کبت ، سنو شعرِ نظیرِؔ فقیر و عنی
ابنِ انشا