غزل : اس نے خودی کا نشہ اُترنے نہیں دیا - بیدل حیدری

غزل
اس نے خودی کا نشہ اُترنے نہیں دیا
خود مر گیا ضمیر کو مرنے نہیں دیا

آتا ہوا دکھائی دیا تھا وہ دور سے
پھر یہ ہوا کہ ساتھ نظر نے نہیں دیا

احساس تو مجھے بھی سفر میں تھکن کا تھا
سایہ مگر کسی بھی شجر نے نہیں دیا

تنہا سے ایک شخص کو دیکھا تھا راہ میں
پھر راستوں نے آگے گزرنے نہیں دیا

صیقل کیا ہے مجھ کو مری حیرتوں نے خود
یہ آئینہ تمہاری نظر نے نہیں دیا

بیدلؔ ہم اہلِ شوق بھی کتنے حریص ہیں
جو زخم بھی لگا ، اسے بھرنے نہیں دیا​
بیدل حیدری
 
Top