نظر لکھنوی غزل: اس چہرۂ حسیں کا خیالِ حسیں رہے ٭ نظرؔ لکھنوی

دادا مرحوم کی ایک غزل احباب کے ذوق کی نذر:

اس چہرۂ حسیں کا خیالِ حسیں رہے
دل میں کھلی سدا یہ کتابِ مبیں رہے

گلشن پسند ہم تھے پہ صحرا نشیں رہے
اندوہگیں سے ہائے ہم اندوہگیں رہے

سر مستی و سرور کا اس کے ٹھکانہ کیا
جس دل کی سمت وہ نگہِ سرمگیں رہے

خاکی تھے ہم تو خاک سے نسبت نہیں گئی
روئے زمیں سے اٹّھے تو زیرِ زمیں رہے

اس طرح بھی ملی ہے کبھی منزلِ مراد؟
دیکھی کہیں جو دھوپ تو سایہ نشیں رہے

منزل کی سمت چلتے زمانہ گزر گیا
دیکھا پلٹ کے جب تو جہاں تھے وہیں رہے

ہر لحظہ مٹتے جاتے ہیں رنگیں نقوشِ دہر
دنیا ہماری آنکھ میں کیونکر حسیں رہے

ہر آرزوئے دل سے تقاضا ہے روز و شب
جائے نکل یہ دل سے مرے پھر کہیں رہے

اللہ رے انقلابِ زمانہ کہ اے نظرؔ
کافر یہ کہہ رہا ہے مسلماں نہیں رہے

محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی

 
آخری تدوین:
اس لفظ کا مطلب بتا دیں پلیز ۔۔
خاکی تھے ہم تو خاک سے نسبت نہیں گئی
روئے زمیں سے اٹّھے تو زیرِ زمیں گئے
اس شعر میں زیر زمیں گئے ہی ہے یا زیر زمیں رہے ؟؟؟
منزل کی سمت چلتے زمانہ گزر گیا
دیکھا پلٹ کے جب تو جہاں تھے وہیں رہے
بہت زبردست اور لاجواب ۔۔ ہر ایک شعر بے مثال ہے ۔۔ ڈھیروں داد
 
اس لفظ کا مطلب بتا دیں پلیز ۔۔
غمگین
اس شعر میں زیر زمیں گئے ہی ہے یا زیر زمیں رہے ؟؟؟
تصحیح کرنے کا شکریہ
بہت زبردست اور لاجواب ۔۔ ہر ایک شعر بے مثال ہے ۔۔ ڈھیروں داد
بہت شکریہ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خاکی تھے ہم تو خاک سے نسبت نہیں گئی
روئے زمیں سے اٹّھے تو زیرِ زمیں رہے

اس طرح بھی ملی ہے کبھی منزلِ مراد؟
دیکھی کہیں جو دھوپ تو سایہ نشیں رہے

سبحان اللہ سبحان اللہ !! کیا کلام ہے ۱ بہت خوبصورت!!!
خاکی تھے ہم تو خاک سے نسبت نہیں گئی !!! کیا مصرع ہے !

تابش بھائی اس غزل مین شریک کرنے کا بہت بہت شکریہ !! اللہ آپ کو سلامت رکھے!
 
Top