محمد تابش صدیقی
منتظم
اشاروں ہی اشاروں میں وہ کچھ فرما ہی جاتے ہیں
ہمارے اضطرابِ شوق کو بھڑکا ہی جاتے ہیں
بہت سے مدعی بزمِ محبت سے نکل آئے
تمنا جن کی ناپختہ ہو وہ گھبرا ہی جاتے ہیں
معاذ اللہ مجبوری محبت کی بھی کیا شے ہے
بھلاتا ہوں ہزار ان کو مگر یاد آ ہی جاتے ہیں
دلِ مضطر نے رازِ عشق نادانی سے کہہ ڈالا
فریبِ دوست اکثر دوستی میں کھا ہی جاتے ہیں
محبت آپ مقصودِ محبت ہے دلِ ناداں
جو اِن گلیوں میں چلتے ہیں وہ اُن کو پا ہی جاتے ہیں
خدا محفوظ رکھے ہمرہوں کو خود پسندی سے
یہ وہ فتنے ہیں جو انسان کو بہکا ہی جاتے ہیں
عزیزؔ اپنے حجابِ نَو بہ نَو پر ناز ہے ان کو
مگر دامِ تصور میں وہ اکثر آ ہی جاتے ہیں
٭٭٭
ملک نصر اللہ خان عزیزؔ
ہمارے اضطرابِ شوق کو بھڑکا ہی جاتے ہیں
بہت سے مدعی بزمِ محبت سے نکل آئے
تمنا جن کی ناپختہ ہو وہ گھبرا ہی جاتے ہیں
معاذ اللہ مجبوری محبت کی بھی کیا شے ہے
بھلاتا ہوں ہزار ان کو مگر یاد آ ہی جاتے ہیں
دلِ مضطر نے رازِ عشق نادانی سے کہہ ڈالا
فریبِ دوست اکثر دوستی میں کھا ہی جاتے ہیں
محبت آپ مقصودِ محبت ہے دلِ ناداں
جو اِن گلیوں میں چلتے ہیں وہ اُن کو پا ہی جاتے ہیں
خدا محفوظ رکھے ہمرہوں کو خود پسندی سے
یہ وہ فتنے ہیں جو انسان کو بہکا ہی جاتے ہیں
عزیزؔ اپنے حجابِ نَو بہ نَو پر ناز ہے ان کو
مگر دامِ تصور میں وہ اکثر آ ہی جاتے ہیں
٭٭٭
ملک نصر اللہ خان عزیزؔ