غزل اصلاح کے لیے حاضر

اس شہر کے کوچوں میں‌ زندگی نہیں ہوتی
گھر کے سونے آنگن میں روشنی نہیں ہوتی

رت بدل گئی شاید جو تیرے حوالے سے
دل کو اب وہ پہلی سی بے کلی نہیں ہوتی

تو ملے تو پہروں تک شعر گنگناتے ہیں
تجھ سے دور رہ کر کیوں شاعری نہیں‌ہوتی

یہ میری محبت نے شوخیاں‌ بکھیریں‌ ہیں
جو تمہاری آنکھوں‌میں خامشی نہیں ہوتی

مصلحت کے مارے کچھ ازلی غلاموں‌سے
شاہِ وقت کے آگے سرکشی نہیں‌ہوتی
 

dilshadnazmi

محفلین
وہاب اعجاز خان نے کہا:
اس شہر کے کوچوں میں‌ زندگی نہیں ہوتی
گھر کے سونے آنگن میں روشنی نہیں ہوتی

رت بدل گئی شاید جو تیرے حوالے سے
دل کو اب وہ پہلی سی بے کلی نہیں ہوتی

تو ملے تو پہروں تک شعر گنگناتے ہیں
تجھ سے دور رہ کر کیوں شاعری نہیں‌ہوتی

یہ میری محبت نے شوخیاں‌ بکھیریں‌ ہیں
جو تمہاری آنکھوں‌میں خامشی نہیں ہوتی

مصلحت کے مارے کچھ ازلی غلاموں‌سے
شاہِ وقت کے آگے سرکشی نہیں‌ہوتی


آپ کی غزل کا پہلا مصرع بے وزن ہوگیا ہے
کیونکہ آپ نے شہر کو بہ وزن ڈگر نظر اُتر اثر باندھا ہے
جبکہ شہر بر وزن نذر زہر مہر قہر ہے ۔۔۔۔
آپ پھر سے کوشش کریں ، دوسری بات یہ کہ مقطع میں پہلا مصرع
بے وزن ہے ، باقی غزل کے سارے شعر وزن میں ہیں ۔
آپ پھر سے کوشش کریں ۔ مطلع کے پہلے مصرعے کے لئے اور
مقطع کے بھی پہلے مصرعے کے لئے ، باقی اصلاح اُمید ہے جناب
اعجاز اختر صاحب کریں گے ۔ ۔۔۔۔ میں یہں تک آپ کی رہمنائی کر
رہا ہوں ۔کیونکہ یہ حق اعجاز اختر صاحب کا ہے ۔۔۔۔۔۔وہی اس پر اپنی
اصلاح ثبت کر سکتے ہیں ۔ وا سلام دلشاد نظمی
 

الف عین

لائبریرین
اصلاح حاضر ہے، اس میں دلشاد نظمی کی بات کو پہلے ہی دھیان میں لیا جا چکا ہے۔ اب اصلاح پوسٹ کرنے گیا تو ان کا پیغام دیکھا ہے۔

اس نگر کی گلیوں میں‌ زندگی نہیں ہوتی
گھر کے سونے آنگن میں روشنی نہیں ہوتی

رت بدل گئی شاید جو ترے حوالے سے
دل کو اب وہ پہلی سی بے کلی نہیں ہوتی

تو ملے تو پہروں تک شعر گنگناتے ہیں
تجھ سے دور رہ کر کیوں شاعری نہیں‌ہوتی

یہ مری محبت نے شوخیاں‌ بکھیری‌ ہیں
جو تمہاری آنکھوں‌میں خامشی نہیں ہوتی

ہیں غلام ازل سے، ہم مصلحت کے ماروں سے
شاہِ وقت کے آگے سرکشی نہیں‌ہوتی
 
Top