شکیب
محفلین
تقطیع میں درست ہے ۔۔۔ میں سمجھا نہیں آپ کس طرف توجہ دلا رہے ہیں ؟؟؟
تنافر ہی کی طرف اشارہ تھا،ورنہ آپ کا دیا مصرع زیادہ موزوں ہے۔عیب تنافر
تقطیع میں درست ہے ۔۔۔ میں سمجھا نہیں آپ کس طرف توجہ دلا رہے ہیں ؟؟؟
تنافر ہی کی طرف اشارہ تھا،ورنہ آپ کا دیا مصرع زیادہ موزوں ہے۔عیب تنافر
ایسی جسارتوں کی شاعروں کو بہت ضرورت ہوتی ہے۔عرض کرنے کی جسارت کی تھی
بہت نوازش ظہیر بھائی!بہت خوب اسد بھائی ! خوبصورت!! واہ!
ہم نے بھی آنکھ موند لی اندھوں کے شہر میں
جینا بہت کٹھن تھا ، سو آسان ہو گیا
کیا چھا شعر ہے!! بہت داد آپ کے لئے ۔
مطلع کے مصرع اول میں ’’تو‘‘ پر پیش لگا دیجیے تاکہ تُو پڑھا جائے ورنہ تعقید کا امکان ہے ۔
سرطان والا شعر خوب ہے ۔ اچھا خیال ہے ۔ لیکن سم اس طرح مفرد عمومًا مستعمل نہیں۔ ہمیشہ ترکیب کی صورت میں ملتا ہے ۔ چنانچہ نامانوس سا لگ رہا ہے ۔ ویسے بھی سم گھولنے کے بجائے زہر گھولنا درست محاورہ ہے ۔ اگر کوئی اور بہتر صورت ہوسکے تو دیکھ لیجیے۔
بحرِ تخیلات میں اب تک سکوت تھاایک شعر اور یاد آگیا۔
خاموش تھا جِفا پہ، فرشتہ تھا کل تلک
حق مانگنے سے آج میں 'شیطان' ہو گیا
بہت شکریہ خالد صاحب۔ماشاء اللہ بہت خوب
غزل---مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
پہچانتے ہوئے بھی تو انجان ہو گیا
اپنے ہی گھرمیں آج میں مہمان ہو گیا
پورا جو تیرے وصل کا ارمان ہو گیا
پا کر تجھے میں اور پریشان ہو گیا
بحرِ تخیلات میں اب تک سکوت تھا
جانے کہاں سے حشر کا سامان ہو گیا
خاموش تھا جِفا پہ، فرشتہ تھا کل تلک
حق مانگنے سے آج میں 'شیطان' ہو گیا
پہلےتو بزمِ یار میں تنہا تھا صرف میں
پھر یوں ہوا کہ شہر بھی ویران ہوگیا
سپنے مری رگوں میں زہر گھولتے رہے
آخر کو خواہِشات کا سرطان ہو گیا
ہم نے بھی آنکھ موند لی، اندھوں کے شہر میں
جینا بہت کٹھن تھا ، سو آسان ہو گیا
دوبارہ حاضر ہے،آپ سب احباب کی رائے کے لیے۔۔۔۔۔۔
تصحیح کے لئے بہت شکریہ۔ ذرا اس مصرعے کو دیکھ لیجئے۔سپنے مری رگوں میں زہر گھولتے رہے
آخر کو خواہشات کا سرطان ہوگیا
اسد بھائی ۔ یہاں آپ نے زہر کا تلفظ بروزن جگر باندھ دیا ہے ۔ اس لئے وزن خراب ہوگیا ۔ اسے درست کرنا ہوگا۔
چلے گا اسد بھائی ۔تصحیح کے لئے بہت شکریہ۔ ذرا اس مصرعے کو دیکھ لیجئے۔
خوابوں کا زہر ، خون میں یوں پھیلتا رہا
آخر کو خواہشات کا سرطان ہو گیا
تّشکر ظہیر بھائیچلے گا اسد بھائی ۔