غزل اصلا ح کی درخوا ست ہے

نافرع

محفلین
اک کوشش کی ہے آ پ کی خدمت میں پیش ہے۔ اصلا ح کی درخوا ست ہے۔


مرا حال اس نے سنا کچھ نہیں
گویا درد کی اب دوا کچھ نہیں

کبھی ٹوٹ کرچاہتے ہیں اسے
کبھی سوچتے ہیں خدا کچھ نہیں

بہت سوچ کرساتھ چلنا مرے
مرے پاس غم کے سواکچھ نہیں

گھڑی وصل کی یوں بیتی کہ ،اسے
نظربھرکے دیکھاکہا کچھ نہیں

یہاں سے چلوکوچ کرئیں،کہیں
یہاں زندگی سا بچا کچھ نہیں
 

فاتح

لائبریرین
گویا درد کی اب دوا کچھ نہیں
گھڑی وصل کی یوں بیتی کہ ،اسے
یہاں سے چلوکوچ کرئیں،کہیں

گویا کو گیا، بیتی کو بتی، اور کریں کو کرئیں کے وزن پر باندھا گیا ہے جو غلط ہے۔ پہلے تو اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ بعد ازاں معنوی اصلاحات کی جانب توجہ کریں گے۔
 

محمد امین

لائبریرین
گویا درد کی اب دوا کچھ نہیں
گھڑی وصل کی یوں بیتی کہ ،اسے
یہاں سے چلوکوچ کرئیں،کہیں

گویا کو گیا، بیتی کو بتی، اور کریں کو کرئیں کے وزن پر باندھا گیا ہے جو غلط ہے۔ پہلے تو اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ بعد ازاں معنوی اصلاحات کی جانب توجہ کریں گے۔

اغلب خیال یہی ہے کہ "کرئیں" کی جگہ شاعر "کرلیں" لکھنا چاہ رہے تھے۔۔۔ناقص رائے ہے میری۔
 

نافرع

محفلین
بہت بہت شکریہ آپ لوگوں کا

آگر میں بیتی کو ڈھلی سے بدل دیا جاے اور مطلع میں
میرے درد کی اب دوا کچھ نہیں" کردیا جاے تو ۔۔۔؟
 

الف عین

لائبریرین
اس طرح وزن میں تو آ جاتے ہیں اشعار۔ لیکن ‘ڈھلی‘ بھی مناسب نہیں۔
گھڑی وصل کی یوں ڈھلی کہ ،اسے
نظربھرکے دیکھاکہا کچھ نہیں
محض ’ڈھلی‘ سے قطع نظر، ‘اسے‘ سے مراد کیا ہے، وصل کی شب یا محبوب؟؟ اس کے علاوہ ’اسے‘ کا محل بھہی دوسرے مصرع میں بہتر لگتا ہے۔ اس شعر کو ترمیم کیا جائے تو سوچا جائے۔ (کہ بر وزن ‘کے‘ کی بات فی الحال نہیں کر رہا کہ یہ ممکن ہے کہ عارضی ہو، ایک عارضی اصلاح یوں کی جا سکتی ہے
گھڑی وصل کی بیتی کچھ اس طرھ
اسے دیکھا جی بھر ، کہا کچھ نہیں
 
Top