ایس فصیح ربانی
محفلین
غزل
اللہ رے! اشارہء ابرو کا اعتبار
آنے لگا ہے حسن کے جادو کا اعتبار
کس بے یقین شہر میں زندہ ہیں ہم جہاں
صوفی کا‘ پارسا کا‘ نہ سادھو کا اعتبار
دیتا ہے ساتھ تیرگیء شب میں یا نہیں
اِس عہد میں نہیں کوئی جگنو کا اعتبار
موسم بدل گیا تو دکھائی نہ دے گا یہ
ایسا ہی کچھ یہاں ہے پکھیرو کا اعتبار
کس کے سہارے برسرِ پیکار ہوں کہ اب
شمشیر کا بھروسہ نہ بازو کا اعتبار
وہ قوم پھر زوال کی جانب تو جائے گی
قائم نہ رکھ سکے جو ترازو کا اعتبار
کب کون دل پہ گھاؤ سجا دے کوئی فصیحؔ
گل رُخ کا اعتبار‘ نہ مہ رُو کا اعتبار
آنے لگا ہے حسن کے جادو کا اعتبار
کس بے یقین شہر میں زندہ ہیں ہم جہاں
صوفی کا‘ پارسا کا‘ نہ سادھو کا اعتبار
دیتا ہے ساتھ تیرگیء شب میں یا نہیں
اِس عہد میں نہیں کوئی جگنو کا اعتبار
موسم بدل گیا تو دکھائی نہ دے گا یہ
ایسا ہی کچھ یہاں ہے پکھیرو کا اعتبار
کس کے سہارے برسرِ پیکار ہوں کہ اب
شمشیر کا بھروسہ نہ بازو کا اعتبار
وہ قوم پھر زوال کی جانب تو جائے گی
قائم نہ رکھ سکے جو ترازو کا اعتبار
کب کون دل پہ گھاؤ سجا دے کوئی فصیحؔ
گل رُخ کا اعتبار‘ نہ مہ رُو کا اعتبار