غزل - اللہ رے! اشارہء ابرو کا اعتبار

غزل

اللہ رے! اشارہء ابرو کا اعتبار
آنے لگا ہے حسن کے جادو کا اعتبار

کس بے یقین شہر میں زندہ ہیں ہم جہاں
صوفی کا‘ پارسا کا‘ نہ سادھو کا اعتبار

دیتا ہے ساتھ تیرگیء شب میں یا نہیں
اِس عہد میں نہیں کوئی جگنو کا اعتبار

موسم بدل گیا تو دکھائی نہ دے گا یہ
ایسا ہی کچھ یہاں ہے پکھیرو کا اعتبار

کس کے سہارے برسرِ پیکار ہوں کہ اب
شمشیر کا بھروسہ نہ بازو کا اعتبار

وہ قوم پھر زوال کی جانب تو جائے گی
قائم نہ رکھ سکے جو ترازو کا اعتبار

کب کون دل پہ گھاؤ سجا دے کوئی فصیحؔ
گل رُخ کا اعتبار‘ نہ مہ رُو کا اعتبار​
 

محمد وارث

لائبریرین
خوبصورت غزل ہے فصیح صاحب، داد قبول کیجیے محترم۔

کس بے یقین شہر میں زندہ ہیں ہم جہاں
صوفی کا‘ پارسا کا‘ نہ سادھو کا اعتبار

کب کون دل پہ گھاؤ سجا دے کوئی فصیحؔ
گل رُخ کا اعتبار‘ نہ مہ رُو کا اعتبار

واہ واہ واہ، لاجواب
 
Top