محمد احسن سمیع راحلؔ
محفلین
عزیزانِ من،
السلام علیکم۔
ایک تازہ غزل آپ سب کی بصارتوں کی نذر۔ اپنی آراء سے ضرور مطلع فرمائیےگا۔
دعاگو،
راحلؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امیدیں ختم ہونے تک، تمنا ختم ہونے تک
ترے در سے نہیں اٹھیں گے دنیا ختم ہونے تک
تماشہ گر کی ہے کٹھ پتلیوں سے بس غرض اتنی
سیاست گالی بن جائے تماشہ ختم ہونے تک
تمہیں جانے سے کب روکا ہے، بس اتنی گزارش ہے
چلوں گا ساتھ میں دل کا علاقہ ختم ہونے تک
نہیں درکار ایسی روشنی کی بھیک اب ہم کو
کہ جو محدود ہو دن کا اجالا ختم ہونے تک
بدل سکتا نہیں یکسر کہانی، پر یہ وعدہ ہے!
نشاں تیرا مٹادوں گا فسانہ ختم ہونے تک
ستم تیرے، وفا میری، بتا سکتا ہوں سب، لیکن
سحر ہوجائے گی یہ گوشوارہ ختم ہونے تک!
بہت کچھ سوچ رکھا ہے کہ بازی کیسے پلٹے گی
رہیں سانسیں اگر دشمن کا حربہ ختم ہونے تک
اگر خوددار تھے اتنے تو پہلے سوچ لینا تھا
انا ہوجائے گی گروی نوالہ ختم ہونے تک
بنا مطلب یہاں راحلؔ سہارا کون دیتا ہے
سبھی کچھ چھین لیتے ہیں سہارا ختم ہونے تک!
السلام علیکم۔
ایک تازہ غزل آپ سب کی بصارتوں کی نذر۔ اپنی آراء سے ضرور مطلع فرمائیےگا۔
دعاگو،
راحلؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امیدیں ختم ہونے تک، تمنا ختم ہونے تک
ترے در سے نہیں اٹھیں گے دنیا ختم ہونے تک
تماشہ گر کی ہے کٹھ پتلیوں سے بس غرض اتنی
سیاست گالی بن جائے تماشہ ختم ہونے تک
تمہیں جانے سے کب روکا ہے، بس اتنی گزارش ہے
چلوں گا ساتھ میں دل کا علاقہ ختم ہونے تک
نہیں درکار ایسی روشنی کی بھیک اب ہم کو
کہ جو محدود ہو دن کا اجالا ختم ہونے تک
بدل سکتا نہیں یکسر کہانی، پر یہ وعدہ ہے!
نشاں تیرا مٹادوں گا فسانہ ختم ہونے تک
ستم تیرے، وفا میری، بتا سکتا ہوں سب، لیکن
سحر ہوجائے گی یہ گوشوارہ ختم ہونے تک!
بہت کچھ سوچ رکھا ہے کہ بازی کیسے پلٹے گی
رہیں سانسیں اگر دشمن کا حربہ ختم ہونے تک
اگر خوددار تھے اتنے تو پہلے سوچ لینا تھا
انا ہوجائے گی گروی نوالہ ختم ہونے تک
بنا مطلب یہاں راحلؔ سہارا کون دیتا ہے
سبھی کچھ چھین لیتے ہیں سہارا ختم ہونے تک!