ابن انشا غزل- اور تو کوئی بس نا چلے گا ہجر کے درد کے ماروں کا - ابنِ انشا

اور تو کوئی بس نا چلے گا ہجر کے درد کے ماروں کا
صبح کا ھونا دوبھر کر دیں رستہ روک ستاروں کا
جھوٹے سکوں میں بھی اٹھا دیتے ھیں یہ اکثر سچا مال
شکلیں دیکھ کے سودا کرنا کام ھے ان بنجاروں کا
اپنی زبان سے کچھ نہ کہیں چپ ھی رہیں گے عاشق لوگ
تم سے تو اتنا ھو سکتا ھے پوچھو حال بچاروں کا
جس جپسی کا ذکر ھے تم سے دل سے دل کواس کی کھوج رہی
یوں تو ہمارے شہر میں اکثر میلہ لگا نگاروں کا
انشاء جی اب اجنبیوں میں چین سے باقی عمر کٹے
جن کی خاطر بستی چھوٹی نام نہ لو ان پیاروں کا
 
Top